صوبوں کو سیکیورٹی انتظامات میں اضافے کی ہدایات

Security

Security

اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کل ڈان کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے وزراتِ داخلہ کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنے سیکیورٹی انتظامات میں تیزی پیدا کریں۔ وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق یہ ہدایات ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردوں کے حملوں کی نئی لہر اور عسکریت پسندوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کی تجدید کے بعد جاری کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں متوقع آپریشن کے ممکنہ ردّعمل سے نمٹنے کے لیے اپنے سیکیورٹی انتظامات میں اضافہ کردیں۔

وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ مرکز نے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اکثر اس طرح کی ہدایات دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جب بھی ہمین مخصوص علاقوں میں دہشت گردوں کے حملوں کے امکانات کے سلسلے میں انٹیلی جنس رپورٹس موصول ہوئی ہیں تو ہم نے وقتاً فوقتاً اس طرح کے الرٹ جاری کیے ہیں۔‘‘

اتوار کے روز دارالحکومت کی سڑکوں پر سیکیورٹی میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ ایلیٹ فورسز کے اہلکار اہم شاہراہوں پر کئی چوکیوں پر تعینات تھے۔ اپنے مخصوص سیاہ وردیوں میں ملبوس یہ اہلکار چیک پوسٹوں پر کاروں کی چیکنگ اور مشکوک افراد کی تلاشیاں لیتے دیکھے گئے۔

سیکیورٹی فورسز نے مشتبہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر بدھ کے روز حملے شروع کردیے تھے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ان حملوں کے جواب میں جمعہ کی رات نصب کیے گئے دو چھوٹے بموں کے دھماکوں نے کیپیٹل سٹی کے سکون کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں ان لوگوں کے خلاف آپریشن جاری ہے، جو معصوم لوگوں کو ہلاک کررہے ہیں۔

اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہے، انہوں نے کہا کہ ’’یہ آپریشن ان لوگوں کے خلاف کیا جارہا ہے، جنہوں نے لوگوں کے جان و مال کو خطرے میں ڈال رکھا ہے، یہ کارروائی ان لوگوں کے خلاف نہیں ہے جو حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کررہے ہیں۔‘‘

اس سے ایک دن قبل وزیرِ داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا تھا کہ شمالی وزیرستان میں جاری یہ کارروائی بڑے پیمانے پر کیا جانے والا آپریشن نہیں ہے، بلکہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف ایک نپا تلا ردّعمل ہے۔تاہم یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ حکومت کس طرح یہ فرق کرے گی کہ کون سے گروپس امن کوششوں کا ساتھ دینا چاہتے ہیں اور کون سے اس کے مخالف ہیں۔