اسلام آباد(جیوڈیسک)سپریم کورٹ میں پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت جاری ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ عدالت نے قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے چاہے اس کا کوئی بھی اثر ہو پرویز مشرف کو بھی ہم قانون کے مطابق انصاف دینگے۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالت عظمی کا تین رکنی بنچ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔
پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز مشرف والدہ کی تیمارداری کے لیے باہر جانا چاہتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ کے موکل کی ہر قانونی مدد کرینگے۔ نہیں چاہتے کہ آپ کے موکل کو کسی قسم کا تعصب ملے۔ ابراھیم ستی نے کہا کہ پرویز مشرف کی سرکاری دستاویزات تک رسائی بھی نہیں رہی۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ غلط پیغام نہ دیں عام آدمی تاثر لے گا کہ ججز ریکارڈ میں رکاوٹ ہیں۔
ابراھیم ستی نے کہا کہ 31 جولائی کے فیصلہ میں چیف جسٹس بھی موجود تھے جبکہ مشرف سے چیف جسٹس کی ذاتی لڑائی سب کے سامنے ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کے دلائل مواد کے بغیر ادھورے ہیں۔ مفروضوں سے کام نہیں چلتا ابراھیم ستی نے کہا کہ انصاف کا بنیادی تقاضا غیر جانبداری ہے۔ سن دو ہزار تک مشرف نے کسی جج کو بھی نہیں چھیڑا۔ پرویز مشرف کے حلف کے بعد بھی ججز نے اپنا کام جاری رکھا۔ افتخار محمد چودھری نے 2000 میں پی سی او حلف لیا۔
نو مارچ 2007 کو چیف جسٹس پرویز مشرف کیخلاف ہوگئے۔ چیف جسٹس نے بھی بیان حلفی میں پرویز مشرف پر ذاتی نوعیت کے الزامات لگائے۔13 ججز نے ریفرنس سنا اور فیصلہ دیا کہ ریفرنس کا جواز نہیں بنتا اور یہ ذاتی نوعیت کا ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ ان مشکلات کے نتیجہ میں تین نومبر کا اقدام ہوا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم آپ کی بات سمجھ گئے ہیں کہ عدالت 31 جولائی کے فیصلے پر انحصار نہ کرے۔ ابراہیم ستی نے تعصب اور شفاف ٹرائیل کے حوالے سے دلائل مکمل کرلیے ہیں۔