امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی سینٹ نے صدر ٹرمپ کی مخالفت کے باوجود دو تہائی سے زائد اکثریت سے دفاعی بل منظور کر لیا۔ امریکا کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر ٹرمپ اب اس بل کو ویٹو نہیں کر سکیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی مدت صدارت کے آخری دنوں میں اس وقت سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب ملکی سینٹ کی دو تہائی اکثریت نے بھی دفاعی بل منظور کر لیا۔
صدر ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن پارٹی کو سینٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ سینٹ کے اکیاسی ارکان نے بل کے حق میں جب کہ تیرہ نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ ٹرمپ کی چار سالہ مدت صدارت کے دوران ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سینٹ کے ریپبلکن ارکان نے اپنی ہی جماعت کے صدر کی مخالف کے باوجود کوئی بل منظور کیا ہو۔
امریکی ایوان نمائندگان مذکورہ دفاعی بل کو پہلے ہی منظور کر چکا ہے۔ دونوں ایوانوں سے اس بل کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیے جانے کے باعث صدر ٹرمپ اب اس بل کو ویٹو نہیں کر سکیں گے۔ صدر ٹرمپ نے 750 بلین ڈالر مالیت کے اس دفاعی بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ویٹو کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔
صدر ٹرمپ کو بل پر کیا اعتراضات تھے؟ صدر ٹرمپ اور ریپبلکن جماعت کے مابین صدارتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے معاملے پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ٹرمپ کو شکوہ ہے کہ ان کی جماعت نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے ان کا کھل کر ساتھ نہیں دیا۔
امریکی دفاعی بل سن 1960 سے ہر سال منظور کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اس مرتبہ صدر ٹرمپ کا اصرار تھا کہ دفاعی بل سیکشن 230 کو بھی ختم کر دے۔ یہ قانون امریکا کی فیس بک اور ٹوئٹر جیسی بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ٹرمپ ان کمپنیوں سے ناخوش ہیں اس لیے انہوں نے مذکورہ سیکشن ختم کرنے کی شرط پر ہی بل پر دستخط کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔
سینٹ سے بل کی منظوری کے بعد صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئیٹ کے ذریعے اپنی ناخوشی ظاہر کرتے ہوئے لکھا، ”سینٹ میں ہمارے ریپبلکن ارکان نے سیکشن 230، جو بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو لامحدود طاقت دیتا ہے، کو ختم کرنے کا موقع ضائع کر دیا۔‘‘
صدر ٹرمپ کو اس بل پر ایک اور اعتراض یہ بھی تھا کہ اس میں امریکی فوجی اڈوں کے نام تبدیل کرنے کی گنجائش بھی رکھی گئی تھی۔ اس تبدیلی کے ذریعے انیسویں صدی کے دوران امریکی خانہ جنگی میں جنوبی ریاستوں کے فوجیوں کی قیادت کرنے والے جرنیلوں کے ناموں سے منسوب فوجی اڈوں کے نام بدلے جا سکتے ہیں۔