امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ نائن الیون کے بعد بنایا گیا متنازعہ گوانتانامو بے حراستی مرکز بند کر دیں گے۔ لیکن امریکی قانون ساز اس فیصلے کے خلاف ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گوانتانامو بے حراستی مرکز بند کرنے کا اپنا وعدہ پورا کریں۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد بنائی گئی اس متنازعہ جیل کو اگلے سال بیس برس مکمل ہو جائیں گے۔
کیوبا میں بنائی گئی اس جیل کا مقصد ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے دوران مشتبہ غیر ملکی دہشت گردوں کو حراست میں لے کر تفتیش کرنا تھا۔ تاہم ناقدین اس متنازعہ حراستی مرکز میں تفتیش کے لیے اختیار کیے گئے طریقوں کو تشدد قرار دیتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکا کے انسانی حقوق سے متعلق پروگرام میں سکیورٹی ڈائریکٹر دافنے ایویاتار نے اپنے بیان میں کہا، ”جتنا عرصہ یہ جیل برقرار رہے گی تب تک عالمی سطح پر انسانی حقوق کے بارے میں امریکی ساکھ متاثر ہوتی رہے گی۔‘‘
نائن الیون کا ‘ماسٹر مائنڈ‘ اب بھی گوانتانامو بے میں یہ حراستی مرکز بارہ جنوری سن 2002 کو قائم کیا گیا تھا اور تب سے اب تک یہاں 780 افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تر افراد پر فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی۔
اس وقت بھی حراستی مرکز میں 39 افراد مقید ہیں جن میں گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کا مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد بھی شامل ہے۔
خالد شیخ محمد سمیت چار دیگر افراد کے خلاف ملٹری ٹریبونل میں مقدمہ چلایا جانا ہے تاہم دو دہائیوں بعد بھی اب تک متعدد وجوہات کے باعث مقدمے کی کارروائی شروع نہیں کی جا سکی۔
گوانتانامو بے میں قید دس افراد ایسے بھی ہیں جنہیں رہا کیا جانا ہے۔
اس وقت بھی حراستی مرکز میں 39 افراد مقید ہیں جن میں گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کا مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد بھی شامل ہے
ایمنسٹی انٹرنیشنل جرمنی کے سربراہ ماتھیاس شرائیبر کہتے ہیں کہ گوانتانامو بے کا حراستی مرکز قانون کی عمل داری نہ ہونے اور جبری گمشدگیوں و تشدد جیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے والوں کو سزا سے بچانے جیسی ‘خطرناک مثال‘ قائم کر رہا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مرکز میں قید افراد کو منصفانہ ٹرائل تک رسائی بھی حاصل نہیں۔ شرائیبر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی اس مرکز کو بند کرنے کے لیے امریکا پر دباؤ ڈالے۔
گوانتانامو بے جیل اب تک کیوں بند نہیں ہوئی؟ صدر اوباما نے سن 2009 میں اس جیل کو بند کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اپنی مدت صدارت کے دوران وہ اس حکم پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے تھے۔
اوباما کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حراستی مرکز کو بند کرنے خلاف تھے۔
موجودہ امریکی صدر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے قبل یہ حراستی مرکز بند کر دیں گے۔ تاہم انہیں کانگریس میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
موجودہ قوانین کے مطابق امریکی حکومت گوانتانامو بے سے قیدیوں کو امریکا منتقل نہیں کر سکتی۔ دسمبر میں امریکی قانون سازوں نے قیدیوں کو امریکا یا دیگر ممالک منتقل کرنے کے لیے امریکی دفاعی بجٹ سے خرچہ کرنے سے روکنے کی شق شامل کر دی تھی۔
صدر بائیڈن نے اس کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ”یہ شق حکومت کو غیر ضروری طور پر گوانتانامو بے کے قیدیوں کو رہائی کے بعد دوسرے متعلقہ ممالک منتقل کرنے یا ان پر فرد جرم عائد کرنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل جرمنی کے نمائندے شرائیبر کہتے ہیں کہ قیدیوں کو جرمنی جیسے ممالک میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ جرمنی پہلے ہی تین قیدیوں کو قبول کر چکا ہے اور ممکنہ طور پر مزید قیدیوں کی منتقلی پر بھی رضامند ہو سکتا ہے۔