تحریر : رائو عمران سلیمان جب 2013 میں عام انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بن گئے تو اس کے بعد نواز شریف نے اپنے اختیارات اور اقدامات اٹھانے کا اغاز کیا،مسلم لیگ کے اہم رہنمائوں کے مطابق ابتدا ہی میں جو سب سے غلط فیصلہ نوازشریف سے سرزدہوا وہ 30 جولائی 2013کے روز ممنون حسین کو اس ملک کا صدربنانا تھا ،ان کے مطابق ممنون حسین کی نہ کوئی سیاسی پہچان ہے اور نہ ہی ان کا کوئی سیاسی پس منظر ہے اور نہ ہی کوئی سماجی پس منظر ، وہ بس کراچی کے ایم اے جناح روڈ پر پھرنے والے لاکھوں انسانوں میں سے ایک تھے یقینا ممنون حسین صاحب ایک شریف النفس انسان ہیں مگر ان کے صدر بنتے ہی پارٹی کے اندر ابتدا ہی میں بے چینی پیدا ہوگئی تھی جس کے باعث غوث علی شاہ جیسے کئی اہم رہنما نوازشریف کا ساتھ چھوٹ گئے،عام انتخابات کے فوری بعدصدر پاکستان کے انتخاب کے لیے وزیرخزانہ اسحق ڈار کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔
اس کمیٹی کے سامنے جو نام زیر غور تھے ان میں سرتاج عزیز ،اقبال ظفرجھگڑا،راجہ ظفرالحق اور سردارمہتاب عباسی کے نام زیر غور تھے جس روز کمیٹی نے میاں صاحب کی سربراہی میںان میں سے ایک نام صدر مملکت کے لیے دینا تھامگر کمیٹی کے تجویز کردہ ناموں سے ہٹ کرجو نام نوازشریف نے اچانک لیاوہ نام تھا ممنون حسین صاحب کا ،کیونکہ زرائع کے مطابق کمیٹی نے متفقہ طور پر سرتاج عزیز کا نام فائنل کیا تھا مگر میاں صاحب نے اس اجلاس میں خاموشی سے بلائے گئے ممنون حسین کے سامنے کچھ اس طرح سے لب کشائی کی کہ میں بہت مشکور ہوں کہ کمیٹی نے ممنون حسین کا نام دیا ہے جو کہ نہایت ہی قابل تحسین فیصلہ ہے ،کمیٹی کے ارکین سمیت تقریباً ہر آدمی ہی میاں نوازشریف کے اچانک اس فیصلے پر ہکا بکا تھا ایسے میں ممنون حسین نہایت ہی پریشانی اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میںدکھائی دیئے، جو اپنی نشست سے اٹھ کر کمیٹی کے ارکین اور اسحق ڈار کے پاس شکریہ اداکرنے کے لیے گئے تو اسحاق ڈار نے ان سے فرمایا کہ وہ ہمارا نہیں بلکہ نوازشریف کا شکریہ اداکریں جنھوں نے آپ کو صدر مملکت بنادیا ہے ہماری کمیٹی کے اجلاسوں میں تو آپ کا زکر تک نہیں ہواہے،اس طرح نوازشریف کی نظر کرم کی بدولت ممنون حسین نے 702 ووٹوں میں سے 432ووٹ حاصل کرکے اکثریت کو حاصل کیا،اس کے ساتھ کچھ معاملات ایسے بھی رونما ہوئے جس سے صدر کے انتخاب سے ناراض لوگوں کو تقویت ملی کے نوازشریف کا فیصلہ غلط تھا یعنی ابھی ابتدا ہی کا زمانہ تھا کہ پانامہ لیکس کا منظر نامہ پوری دنیا میں چھا چکا تھا۔
برسر اقتدارشریف خاندان کا نام پانامہ پیپر میں آنے کے بعد مسلم لیگ نوازکا ہر فرد اسے بین الاقوامی سازش قراردے رہا تھا،ایسے میں صدر مملکت ممنون حسین نے کوٹری میں چیمبر آف بزنس اینڈ ٹریڈفورم کی ایک تقریب میں پانامہ پیپر کو قدرت کا شکنجہ قراردیدیا یہ سب جانتے ہوئے بھی میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کا نام بھی پانامہ پیپر میں آیا ہواہے،اسے ناسمجھی کہیں یا کم عقلی ممنون حسین صاحب نے اس تقریر میں کرپٹ افراد کو پہچاننے کا ایک فارمولا بھی دیا جس میں انہوںنے کہاکہ کرپٹ افراد کے چہرے منحوس ہوتے ہیں جو جتنا بڑا چور ہے اس کی اتنی ہی ٹور ہے ،اور یہ کہ ایسے لوگوں کو اٹھا کر معاشرے سے ہی باہر پھینک دینا چاہیے جبکہ پانامہ میں جن لوگوں کانام آیاہے وہ قدرت کی پکڑ میں ہیں اور وہ بہت جلد اللہ کی پکڑ میں آنے والے ہیں۔غرضکوٹری کی اس تقریب میں صدر صاحب نے اپنی تقریر میں جتنے بھی جملے ادا کیے وہ سب کہ سب میاں نوازشریف کی جانب ہی جارہے تھے جو سیدھا جاکے شریف خاندان پر ایسے ثبت ہوئے کہ نوازشریف کو فوراًہی احساس ہوگیا تھا کہ ان سے کتنی بڑی بھول ہوچکی ہے ،اس کے بعد ملک میں قائم کئی مقامات پر ایسی ہی تقریروں کا سلسلہ جاری رہا جس کے نتیجے میں نوازشریف نے ان کو پابند کردیا کہ وہ اب کہیں اپنی مرضی سے تقریر نہیں کرینگے انہیں جو لکھ کر دیا جائے وہ پڑھ کرہی عوام سے بات چیت کریں۔
جیسا کہ بیان کیا جاچکاہے کہ نوازشریف کو شروع میں ہی احساس ہوگیا تھا کہ ان سے کس قدر غلط فیصلہ ہوگیا ہے،اور اس پر وہ ابھی صدر کی تبدیلی کا سوچ ہی رہے تھے اور ممنون حسین کو صدارت کی کرسی سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا تھااور اس مقصد میں پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جارہا تھا،ایسے میں اسلام آباد میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا دھرنا سامنے آگیااور ملک میں ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ اس افراتفری کے ماحول میں اتنا بڑا فیصلہ کرنا آسان نہ تھا،خیر دھرنے کے دوران صدرصاحب کو ہٹانے کا فیصلہ دبانا پڑامگر دھرنے کے بعد پھر سے اس مسئلے کے لیے کوششوں کو تیز کردیا گیااور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ممنون حسین کو ان کے منصب سے ہٹاکر ان کی جگہ سردار مہتاب عباسی کو صدر پاکستان بنادیا جائے اور اسی مقصد کے لیے ان سے خیبرپختونخواکی گورنرشپ سے استعفیٰ دلوادیا گیا تھا، مگر اس کے بعد صدرممنون حسین صاحب کی ایک بار پھر سے خوش نصیبی کہیے کہ پانامہ کاکیس سپریم کورٹ میں چلا گیاجس سے ہرطرف ہلچل مچ گئی اور کیس ایک عرصہ چلا جس میں نوازشریف کو نااہل کردیاگیااور اس طرح ملک میں ایک اور نئے بحران نے جنم لے لیا، اس ساری کشمکش میں نوازشریف کے ساتھ جو ہوا اس سے صدر ممنون کو تو بہت فائدہ پہنچا مگر اس طویل عرصے میں ممنون حسین کی جانب سے نوازشریف یا ان کی حکومت کو کسی نفلوں کاثواب نہ مل سکا۔
یقینا پانامہ پیپر کے معاملے میں اگر کوئی دانشمند اورعقلمند صدر ہوتا تووہ حکومت کے لیے عدلیہ اور فوج کے درمیان ایک پل کا کرداراداکرتااور موجودہ بحران پیدا نہ ہونے دیتا کوٹری کے بیان کے بعد نوازشریف نے بھی انہیں اس قابل نہ سمجھا تھا کہ ممنون حسین کے عہدے کا فائدہ اٹھایا جاتا اور خود ممنون حسین بھی حیران و پریشان ہی رہے کہ آخر اس ملک میں ہو کیا رہاہے۔صدر مملکت فوج کاسپریم کمانڈر ہوتاہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ ہوتا ہے ۔1956 میں جب اس عہدے کی بنیاد رکھی گئی تو اسکندر مرزااس ملک کے پہلے صدر بنے اور اب تک اس ملک میں گیارہ صدور فائز ہوچکے ہیں ، نوازشرف کے دور حکومت کے صدر رفیق تارڈ بھی اشاروں پر ہی چلنے والے صدر تھے جو انتہائی تعلیم یافتہ اور وزن دار شخصیت کے حامل انسان تھے جب مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگائی تونوازشریف کو جب گرفتار کرلیا گیاتو صدر رفیق تارڈ نے استعفیٰ نہیں دیا اور اپنے عہدے کا پاس کرتے ہوئے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے کہ خود جنرل مشرف بھی مجبور ہوگئے تھے کہ وہ صدر رفیق تارڈ کو اپنے ساتھ رکھتے ان کے اقدامات سے مجبور مشرف نے یہ عافیت سمجھی کہ صدر رفیق تارڈ کو نہ چھیڑا جائے اس طرح رفیق تارڈ نے مشکل میں گھرے نوازشریف کو بھی بہت فائدہ پہنچایا ایوان صدر میں بیٹھ کر انہوںنے مشرف کے اسیرنوازشریف کی بہت مددکی بلکہ نوازشریف کہ والد میاں شریف نے خود رفیق تارڈ کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ استعفیٰ نہ دیں اور اپنی جگہ بیٹھے رہیں اس کی نسبت ممنون حسین کو ہٹانے کی کوشش خود نوازشریف نے ا بتدائی دور میں ہی شروع کردی تھی۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔