تحریر : محمد قاسم حمدان سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر ایشیا ،یورپ اور افریقہ کے وسیع علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی ۔یورپ کے کچھ ممالک یا تو اس کاحصہ تھے یا باجگزار ۔ لیکن مسلمانوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب سلطنت کا شیرازہ بکھرا تو اس کی کوکھ سے تین درجن ملکوں نے جنم لیا۔ مغربی استعمار سے خون ریز جنگ کے بعد بظاہر ترکی کا دفاع کرنے والے اتاترک نے خلافت اور اسلام کی بجائے مغربی طرز زندگی اختیار کرنے کی شرط پر جدید ترکی کی بنیاد ڈالی ۔ترک قوم کا رشتہ اپنے شاندار ماضی سے کٹ کر مغرب سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ۔عربی کی بجائے ترکی میں اذان ،عربی رسم الخط کی جگہ رومن مسلط کیا گیا ‘حج پر پابندی لگا دی ‘ مسلمانوں کے نام بگاڑ دئے یہ سب اقدام ترکی کو مغرب کا مقلد بنانے کے لئے کئے گئے ۔اتاترک کے سیکولر ترکی میں مسلح افواج کو روایتی طور پر ایک مضبوط سیاسی قوت اور اتاترک کی جمہوریہ کے محافظ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ۔اس تناظر میں فوج نے اپنے تئیں خود کا نصب العین جمہوریت ،سیکولرزم اور اتاترک کی اصلاحات کی حفاظت بنا لیا۔
ترکی کی تاریخ میں 1960,1980 1997میں ہونے والی فوجی بغاوتیں اسی زمرے میں آتی ہیں ۔1960 ء میں عدنان میندریس نے ترک قوم کا رشتہ اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی تو انہیں تخت سے اٹھا کر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔12ستمبر 1980 ء کے فوجی انقلاب کے بعد ساڑھے چھ لاکھ افراد کو گرفتار کیا گیا اور سینکڑوں افراد کو فورا پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا۔ 1960ء میں عدنان میندریس کو سزائے موت دیکر جمال گرسل اور ترکی کے اسلام دشمن عناصر نے یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے ترکی میں اسلام کا احیا کرنے والوں کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا ہے لیکن گھٹن اور مایوسی کی فضا اس وقت چھٹ گئی جب نجم الدین اربکان ترکی کے آسمان پر روشن ستارہ بن کر چمکے۔
اربکان پر جب تا حیات پابندی لگا دی گئی تو ان کے تربیت یافتہ رجب طیب اردوان نے قوم کی کشتی کے پتوار سنبھال لئے ۔رجب طیب اردوان دوران طالب علمی سیاست میں حصہ لینے کی غرض سے قومی طلبہ یونین سے وابستہ ہو گئے ۔یہ اشتراک مخالف ایک ایکشن گروپ تھا ۔اس گروپ میں رہتے ہوئے اردوان نے ایک ڈرامہ لکھا ۔اس ڈرامہ کے ذریعے انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہودیت ،فری میسنری اور اشتراکیت سے انسانیت کوشدید خطرہ ہے ۔اردوان نے رفاہ پارٹی کے ٹکٹ پر میئر کا الیکشن لڑا تو کامیابی نے ان کے قدم چومے اور ان کی مقبولیت کا گراف مسلسل بڑھتا گیا بحیثیت مئیر انہوں نے نہ صرف استنبول کو دلہن کی طرح سجا دیا بلکہ اس میں چار ارب ڈالر کے ترقیاتی کام بھی کروائے۔
Erdogan Win
اردوان نے اپنے چند ساتھوں کے سا تھ مل کر جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ(A K Pیا آق)پارٹی کی بنیاد رکھی جس نے 2007 میں 50%ووٹ لیکر تاریخ ساز کامیابی حاصل کی ۔7جون 2015میں ہونے والے انتخابات میں اسے 41%ووٹ اور 258نشستیں ملیں۔ آق نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا نے کی کوشش کی مگر اسے ناکامی ہوئی ۔دوسری طرف اگر اپوزیشن چاہتی تو مضبوط اتحاد بنا کر اقتدار سے اردوان کو بے دخل کر سکتی تھی لیکن ان کے نظریات میں آگ اور پانی کا فرق ہونے پر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔چنانچہ رجب طیب نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا اور یکم نومبر کونئے الیکشن کا اعلان کیا۔تجزئیوں اور سروے رپورٹس میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ کو 41%اور حد 45%کے سا تھ کولیشن کی صورت میں اپوزیشن جماعتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے دکھایا گیا لیکن تمام جائزوں اور رپورٹس کے برعکس آق نے سب کو عاق کردیا۔
اردوان کی جماعت نے 49.5% ووٹ لے کر دشمنوں کے مذموم عزائم پر پانی پھیر دیا ۔ اردوان نے دوسرے لیڈروں کی طرح قوم سے وعدے کرنے کی بجائے کہا کہ ہمارا ماضی ہی ہمارے مستقبل کی عکاسی کرتا ہے ۔اردوان نے 2002ء میں جب اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھا تو ترکی آئی ایم ایف کا اربوں ڈالر کا مقروض تھا ۔اردوان نے قرضے اتارنے کے بعد اعلان کیا کہ I M F اب ترکی سے قرضے لے سکتا ہے ۔ان کے دور میں قومی آمدنی میں 64%اور شخصی آمدنی میں 43%اضافہ ہوا۔افراط زر کی شرح 67%سے کم ہو کر آٹھ فیصد تک رہ گئی ۔قومی ذخائر بمشکل 25بلین ڈالر تھے اردوان کی محنت اور جہد مسلسل سے 135 بلین ڈالر تک جا پہنچے ۔ایک ڈالر کے 222لیرے تھے اب ڈالر کی قیمت تین لیرے سے بھی کم ہے۔
ترکی دنیا کی سترویں بڑی معیشت ہے۔ اردوان کے دور میں یونیورسٹیزکی تعداد 98 سے بڑھ کر 186ہو گئی ۔2007ء تک مزید چھ ہزار کلو میٹر ڈبل لین شاہراہ کی تعمیر ہوئی ۔اسی طرح 2011ء میںایک ہزار کلو میٹر نئی ریلوے لائن کے ساتھ پانچ سو کلو میٹر پرانے ٹریک کی تجدید کاری کی گئی۔ ہائی سپیڈ ٹرین سروس کا آغاز ہوا۔زیر سمندر ریلوے نظام کے بڑے منصوبے کی تکمیل ہوئی ۔ ترکی میں اسلام کی نشاہ ثانیہ اور اردوان کی بدولت ترکی کی برق رفتار ترکی کو دیکھ کر مغرب نے اردوان کی کردار کشی کی مہم شروع کررکھی ہے۔فوجی بغاوت اس کا تسلسل ہے۔ان کے سکینڈل بنائے گئے ۔انڈیپینڈنٹ ،اکانومسٹ اور سی این این نے ان کے خلاف محاذ کھول لیا۔
Gulen
اکانومسٹ نے جون کے انتخابات کی مہم میں اپنے شمارے کے ٹائیٹل پر اردوان کی پورے صفحے کی تصویر لگا کر یہ سرخی جمائی ۔democrat or sultan?.اکانومسٹ نے ترک عوام سے مخاطب ہو کر تمام صحافتی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے واشگاف الفاظ میں لکھا کہ اتاترک کی سیکولر نظریات کی محافظ جماعت کو ووٹ دیں تاکہ آق کا حساب بے باک کیا جا سکے۔ دوغان اور گولن میڈیا گروپ نے اپنی پوری طاقت اردوان کو محور شر ثابت کرنے پر لگا دی ۔آق میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔7جون 2015ء کو جب اردوان کی پارٹی حکومت بنانے میں ناکام ہوئی تو مغرب نے جشن منانا شروع کر دیا کہ ترکی میں اسلام پسندوں کے زوال کا آغاز ہو گیا ۔لیکن آسمان والے نے ان کی تمام تدبیریں ناکام کر دیں۔ آق نے امریکی انتخابات کی طرح تمام اندازے ،تجزئیے اور میڈیا پیش گوئیوں کے برعکس دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔یہ کامیابی انہیں فقط اسلام کے ترکی میں احیا کی وجہ سے نصیب ہوئی بلکہ اس سے بڑھ کر ترکی کی تاریخ میں پہلی دفعہ فوجی بغاوت ناکام ہوئی۔
اسلام کے احیاء کے روح پرور مناظر کی جھلک گزشتہ رمضان میں ایا صوفیہ میں دیکھنے میں آئی جہاں مسلسل قرآن کی تلاوت ہوتی رہی۔ حال ہی میں ایاصوفیہ کوسترسال پابند سلاسل رہنے کے بعد عبادت کے لئے کھول دیا گیا جوکہ اسلام کی فتح اور اتاترک کے سیکولر زم کی شکست ہے اوراردوان کی اسلام سے محبت کا عملی ثبوت بھی ہے ۔اردوان نے کہا تھا کہ مسجدیں ہمارے قلعے اور مینا ر ہمارے نیزے ہیں ۔جب اتاترک نے ایا صوفیہ کو بند کردیا تو مفکر اسلام علامہ اقبال نے کہا تھا لادینی ولاطینی کس پیچ میں الجھا تو دارو ہے ضعیفوں کا لا غالب الا ھو
آج ایاصوفیہ سے تکبیر کی صداوں میں لا غالب الا ھو سے اقبال کی پیشگوئی سچ ثابت ہو رہی ہے مغرب کے اسلام دشمن عناصر نے اس پیش قدمی کو رینگتا ہوا اسلام Creeping aslam قرار دیا ہے۔ ایا صوفیہ استنبول کے ماتھے کا جھومر ہے ‘استنبول کو667ق م اس کے بانی بائزاس کے نام پر بازنطین کا نام دیا گیا ۔11مئی 330کوقسطنطین اعظم کے نام پر اسے قسطنطنیہ کا نام دیا ۔363 میں تھیوڈوس نے شہر کو 60 فٹ بلند تین فصیلوں میں بند کردیا ۔ مسلمانوں نے 674 اور 717 میں قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے یلغار کی مگر ناکام رہے ۔حضرت ابو ایوب انصاری اسی فصیل کے نیچے زخمی ہو کر شہید ہوئے ۔یہ شہر یورپ اور ایشیا کے سنگم پر شاخ زریں اور بحر مرمرہ پر واقع ہے اسے شہروں کی ملکہ بھی کہا جاتا ہے ۔حضورe نے اس شہر کے بارے میں فرمایا تھا کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے سب جنتی ہوں گے ۔اقبال نے بھی اسے مسلمانوں کا دل کہا تھا : اے مسلماں ! ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر سینکٹروں صدیوں کی کشت وخوں کا حاصل ہے یہ شہر 29 مئی1453ئکو سلطان محمد الفاتح نے اس شہر کو فتح کرکے اس کا نام اسلام بول رکھ کر اسے اسلام کا دل بنا دیا آج بھی ترکی کا پیینو راما میوزیم لاکھوں سیاحوں کی دلچسپی کا محور رہتا ہے جہاں سلطان فاتح کی فوج کی قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی منظر کشی کی گئی ہے۔