امریکی (اصل میڈیا ڈیسک) صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس طویل ترین جنگ کے خاتمے کا یہی بہترین متبادل تھا۔ ادھر امریکیوں کی واپسی کے بعد سے کابل میں طالبان کا جشن جاری ہے۔
ایک ایسے وقت جب افغانستان سے فوجی انخلا کے حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کی زد میں ہیں، انہوں نے اس حوالے سے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔ 20 سالہ جنگ کے اختتام کے دوسرے روز جو بائیڈن نے قوم کے نام اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں مزید رکنا کوئی متبادل ہی نہیں تھا۔
افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے دوران ہی جس انداز میں طالبان نے افغانستان پر دوبارہ قبضہ کر لیا اس پر سبھی ششدر ہیں۔ امریکا میں جو بائیڈن کے سیاسی مخالفین اور بعض ماہرین اس حوالے سے نکتہ چینی کرتے رہے ہیں کہ ان کی انتظامیہ اسے اچھی طرح سے انجام نہیں دے پائی اور بعض فیصلے کرنے میں انہوں نے دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
امریکی صدر نے افغانستان کے حوالے سے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ امریکی عوام سے جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، ”افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔” انہوں نے مزید کہا، ”میں اس جنگ کو مزید طول نہیں دے سکتا تھا اور نہ ہی کبھی نہ ختم ہونے والے انخلا کا قائل تھا۔”
امریکی صدر نے کہا کہ افغانستان میں ہر روز تقریباً 30 کروڑ ڈالر کا خرچ آتا تھا اور اب وقت آ چکا تھا کہ وہاں سے نکلا جائے۔ انہوں نے کہا، ”میں نے افغانستان میں ایک اور دہائی کی جنگ چھیڑنے سے انکار کر دیا۔” ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تقریبا ًآٹھ لاکھ امریکی شہریوں نے اپنی خدمات انجام دیں جس میں سے دو ہزار 461 ہلاک بھی ہو گئے۔
انہوں نے کہا، ”ہم نے افغانستان میں جو کچھ بھی کرنے کا ارادہ کیا تھا اس میں ہم ایک دہائی قبل ہی کامیاب ہو گئے تھے۔ اور پھر ایک اور عشرے تک ہم وہاں رکے۔ یہ جنگ ختم کرنے کا وقت تھا۔ افغانستان سے متعلق یہ فیصلہ صرف افغانستان کے بارے میں ہی نہیں ہے بلکہ
یہ بڑی فوجی کارروائیوں کے ذریعے دوسرے ممالک کی از سر نو تعمیر کرنے کے دور کے خاتمے کے بارے میں بھی ہے۔”
اس موقع پر امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ جاری رہے گی اور جہاں کہیں بھی شدت پسند ہوں گے ان کا تعاقب کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا، ” جو لوگ بھی امریکا کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ان کے لیے امریکا کبھی سکون سے نہیں بیٹھے گا۔ ہم انہیں نہ تو معاف کرنے والے نہیں ہیں اور نہ ہی چھوڑیں گے۔ ہم ایسے افراد کو دنیا کے کسی بھی کونے سے ڈھونڈ نکالیں گے اور ایسے افراد کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔”
ان کا کہنا تھا کہ اب امریکا سفارتی ذرائع سے افغانیوں کی مدد کرنے کی کوشش کرے گا اور انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے، آواز بلند کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا، ”میں یہ صاف کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔”
صدر جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان سے فضائیہ کی مدد سے ہونے والا تاریخ کا یہ اب تک سب سے بڑا انخلا تھا۔ ”دنیا کے کسی بھی ملک نے اب تک اس طرح کا کوئی بھی آپریشن نہیں کیا ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملک کی سکیورٹی کو اس کے لیے تیار رہنے کو کہا تھا کہ اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران، ”ایک لاکھ بیس ہزار سے بھی زیادہ افراد کو محفوظ طریقے سے نکالا گیا، بیشتر ماہرین نے اس حوالے سے جس ممکنہ تعداد کا اندازہ لگایا تھا یہ اس سے دو گنا ہے۔”
امریکی افواج کے نکلتے ہی طالبان نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی سنبھال لی تھی اور تبھی سے طالبان جشن کے موڈ میں ہیں۔ گزشتہ روز ملک کے کئی علاقوں طالبان نے ہوا میں فائرنگ کر کے جشن منایا تھا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ اب ان کا ملک پوری طرح سے آزاد اور خود مختار ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ان کی فتح امریکا کے لیے ایک سبق ہونا چاہیے۔”
نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ جو لوگ کوششوں کے باوجود افغانستان سے نہیں نکل پائے، انہیں بھلایا نہیں جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کابل ایئر پورٹ کو کھلا رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی امداد جاری رہنے کے ساتھ ان لوگوں کا انخلا بھی ہوتا رہے جو اب بھی پھنسے ہیں اور وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران عالمی برادری نے تقریبا ًڈیڑھ لاکھ افراد کو افغانستان سے نکالا ہے تاہم دسیوں ہزار افراد اب بھی وہاں سے نکلنے کے لیے کوشش میں ہیں۔