اسلام آباد(جیوڈیسک)اسلام آباد سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق کیس کی سماعت آج پھر ہو گی۔ نگران حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل بینچ نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو ہدایات جاری کرنے سے متعلق مختلف درخواستوں کی سماعت کی۔ عدالت نے متعلقہ حکام کو حکم دیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے وکلا کو ان کے موکل سے ملنے دیا جائے۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سے ملاقات نہ ہونے پر ان کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ عدالتی حکم نہ ماننے والے جیل حکام کو کھینچیں، جنرل پرویز مشرف سے ملاقات نہ ہونے سے خدشہ ہے کہ ان پر تشدد نہ کیا گیا ہو، جنرل مشرف کا سی ایم ایچ سے طبی معائنہ کرایا جائے۔ اس پر جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو عدالت آپ کے موکل کو یہاں بلا سکتی ہے، آپ کے موکل کے تمام آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
جسٹس جواد خواجہ نے آئین کی کتاب احمد رضا قصوری کو دکھاتے ہوئے کہا کہ جو اس کے خلاف کام کرے گا خواہ کوئی بھی ہو اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ اٹارنی جنرل نے وفاق کی طرف سے تحریری جواب داخل کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ نگران حکومت 20ہزار امیدواروں کے تحفظ اور انتخابات میں مصروف ہے اور بہتر ہے کہ آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ کا فیصلہ منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔
اور اس معاملے میں جلد بازی نہیں کی جانی چاہیے۔ وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا کہ مجاز افسر سیکرٹری داخلہ ہیں لیکن سیکرٹی داخلہ کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جنرل مشرف کو گرفتار اور ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کی سینیٹ کی قرار داد، عدالتی فیصلے اور جنرل پرویز مشرف کی واپسی کے بعد اس حوالے سے کیا ایکشن لیا گیا فائلوں پر کچھ موجود نہیں ہے۔