اسلام آباد(جیوڈیسک)سابق صدر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور پرویز مشرف کو آج کے لیے نوٹس جاری کر دیے ہیں ۔جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے تین نومبر دو ہزار سات کو جو ایمرجنسی نافذ کی۔ جزوی طور پر آئین معطل کر کے پی سی او جاری کیا۔
اور عدلیہ کو برخاست کیا ۔اس دوران وہ سیاہ سفید کے مالک بنے رہے۔اب ساڑھے پانچ سال بعد عدالت عظمی نے انکے خلاف غداری کا مقدمہ بنانے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کاروائی کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ پرویز مشرف کے خلاف کاروائی کے لیے پانچ مختلف درخواستیں دائر ہوئی ہیں ۔ درخواست گزاروں کے وکلا کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اکتیس جولائی دو ہزار نو کے فیصلے میں پرویز مشرف کو غدار قرار دے چکی ہے۔ اب پرویز مشرف ملک واپس آگئے ہیں۔
انکے خلاف فوری آرٹیکل چھ کے تحت کاروائی کی جائے۔ وکیل اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کے بعد مشرف ملزم نہیں بلکہ مجرم ہیں۔ عدالت انہیں فوری حراست میں لینے کا حکم جاری کرے۔ وکیل حامد خان نے دلائل دئے کہ سینٹ نے بھی ایک متفقہ قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت مشرف کو وطن واپسی پر گرفتار کرنا تھا اور غداری کا مقدمہ قائم ہونا تھا ۔جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت پرا سیکیوٹر کا کردار ادا نہیں کر سکتی ۔ مقدمہ چلانے کا کام وفاقی حکومت کا ہے۔
آئین توڑنے والوں کا ٹرائل ضرور ہو گا ۔ لیکن عدالت وفاقی حکومت سے پوچھے گی کہ اس نے مشرف کے خلاف اب تک کاروائی کیوں نہ کی۔ بنچ کے رکن جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ آئین توڑنے پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ وکیل شیخ احسن الدین کا کہنا تھا کہ مشرف وی آئی پی سیکورٹی میں گھوم رہے ہیں ۔ حامد خان کا کہنا تھا مشرف کسی بھی راستے سے ملک سے فرار ہو سکتے ہیں۔
انہیں گرفتار کیا جائے۔ عدالت نے تمام درخواست گذاروں کے ابتدائی دلائل سننے کے بعد جنرل پرویز مشرف اور دیگر فریقین کو منگل کی صبح کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔ آئی جی اسلام آباد نوٹس کی تعمیل کرائیں گے۔ سیکرٹری داخلہ مشرف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی رپورٹ پیش کریں گے۔ جبکہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پرویز مشرف کی ملک سے فرار کو نا ممکن بنائیں گے ۔ اس حکمنامے کے ساتھ سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔