ِ صدر رزرداری تو سبکدوش ممنون آگئے ہیں

Zardari

Zardari

صدر زرداری کو گارڈ آف آنر پیش کرکے ایوانِ صدر سے رخصت کر دیا گیا ہے اور نو ستمبر کو نئے منتخب صدرعزت مآب ممنون حسین بطور صدر حلف اٹھانے کے بعد صدر ممنون حسین کو ایساہی پرتباک گارڈ آف آنرپیش کر کے ایوانِ صدر کی رونقوں سے نواز دیا جائے گا۔ اگرچہ آج ہمارے ملک کے عہدے صدارت سے باعزت سبکدوش ہونے والے صدر زرداری اور اِن کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور موجودہ حکمران جماعت سے وابستہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سمیت حکومتی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں ایک مخصوص طبقے ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے نزدیک بھی جمہوریت کو اچھا انتقام قرار دینے والے صدر آصف علی زرداری اپنا پانچ سالہ کامیاب ترین دورِ صدارت گزارنے کے بعد ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھا کر سبکدوش ہوگئے ہیں۔

یوں یہ ملک کے دوسرے اور کسی جمہوری حکومت کے پہلے صدر ہیں جواپنی مدت صدارت مکمل کرکے سبکدوش ہوئے ہیں جنہیں ایوانِ صدر میں گارڈ آف آنرپیش کرکے رخصت کیا گیا ہے، تو ادھر ہی صدربھی ایوانِ صدر سے اپنے اِس تاریخی جملے آئندہ صدر بنوں گانہ وزیر اعظم یہ کہہ کر رخصت ہوگئے ہیں، مگر آج دوسری طرف حیران کن بات یہ ہے کہ 63 فیصد پاکستانیوں کاخام خیال یہ ہے کہ صدر زراری کی بحیثیت صدر کارکردگی خراب رہی ہے، مندرجہ بالا سطور میں درج دونوں جملوں سے یہ نقطہ واضح طور پر ضرور محسوس کیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی قوم رخصت ہونے والے صدر کی کارکردگی پر دوحصوں میں بٹ چکی ہے۔

جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سابقہ جمہوری حکومت کے ملک کے انتہائی طاقتور ترین مگر ہماری ملکی تاریخ میں مصالحت پسند اور مفاہمتی عمل کی گٹھڑی کے بوجھ تلے دبے رہنے والے صدر محترم المقام عزت مآب سید آصف علی زرداری اپنے عہدے صدارت کے پانچ سال پورے کرکے سبکدوش تو ہوگئے ہیں، مگریہ اپنے پیچھے ملک و قوم کے سوچنے کے لئے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں، جن کا جواب قوم کو بڑی دیدبعدملے گا،جبکہ یہاں ایک امر قابلِ ذکر ضرور ہے کہ رخصت ہونے والے صدر نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں بظاہر تو کہیں بھی اپنے عہدے صدارت چھوڑے جانے پر افسوس یا کسی پچھتاوے کا اظہار نہیں کیا۔

PPP

PPP

مگر اتنا ضرور ہے کہ الٹا انہوں نے اپنے اِس عزم کا ارادہ ضرور ظہار کیا کہ آئندہ صدر بنوں گانہ وزیر اعظمو زارتِ عظمی سے زیادہ اہم پارٹی چلانا ہے، اور اِس کے ساتھ ہی اپنے اِس انٹرویو میں سبکدوش ہونے والے صدرنے اِس بات کا احساس کرتے ہوئے یہ بھی اظہار ضرور کر دیا کہ میرے دورِ صدارت میں مزید اچھے کام کئے ہوسکتے تھے، جو نہیں ہوسکے ہیں اگر اِس حوالے سے دیکھا جائے تو اِن کے پانچ سالہ دورِ صدارت میں اِ ن کی کارکردگی، فیصلوں، اقدامات اور بعض اندرونی اور بیرونی احساس اور غیرمعمولی امورِ مملکت کے حوالوں سے اِن کا قول و کردار کتنا قابلِ اعتبار اور بعض معاملات پر کتنا غیراطمینان بخش رہا ہے، آج اِن کے ظاہر و باطن ہر قول وفعل کے بارے میں کسی کو کچھ بتانے اور یاد دلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے سبکدوش ہونے والے صدر آصف علی زرداری ہماری ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ طاقتور ترین جمہوری صدرتو ضرور تھے، اگر جو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے تویہ ملک و قوم کے لئے کئی حوالوں سے ا یسے قابلِ تعریف احکامات جاری کرکے ایسے اقدامات کرسکتے تھے، جن کے ثمرات ملک اور قوم کو مدتوں مل سکتے تھے، مگروہ اپنی مدتِ صدارت میں ایساکچھ عمل نہیں کرسکے، جواِنہیں کرنا چاہئے تھا، انہوں نے جس کا اظہار بھی کیااور اِس بات کو بھی تسلیم کیا کہ وہ بہت سے کام نہیں کرسکے جو اِنہیں کر دینا چاہئے تھے، کیوں کہ اِن کے سر اور کاندھوں پر مصالحت پسندی اور مفاہمتی پالیسی اور طرح طرح کے مفاہتمی عمل کی اتنی بھاری گٹھڑی کا بوجھ پڑا تھا کہ وہ اِس کے بوجھ تلے ہی دبے رہے۔

اور ایسے دبے رہے کہ اِن کا ہلنا جھلنا بھی مشکل رہااور شاید اِن کی کارکردگی کا گراف نیچے گرانے میں بڑی حد تک یہی وجہ بنی رہی۔ اِس میں شاید دورائے نہ ہوکہ سبکدوش ہونے والے سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں ملک کو درپیش توانائی بحران، بیروزگاری، کرپشن ، دہشت گردی، لوٹ مار، ڈرون حملوں کی روک تھام ، کراچی میں بڑھتی ہوئی قتل وغارت گری وبھتہ خوری کے خاتمے سمیت بلوچستان کے سلگتے مسائل کے حل کے لئے اقدامات تو کیا ایک بھی اقدام نہیں کیا اگر یہ کسی بھی ایک معاملے کو سنجیدگی سے لیتے اور کوئی بھی ایک قابل قدر اقدام اٹھالیتے تو ممکن تھاکہ کوئی ایک مسئلہ ضرورحل ہوجاتا۔

Pakistan

Pakistan

اِنہوں نے کسی بھی مسئلے کے حل کی جانب کوئی توجہ نہ دی، یہ تواپنے سارے عہدے صدارت میں جمہوریت کو ہی پروان چڑھاتے رہے، اور اپنے پرائے روٹھے ہوو ں کو مانتے اور سمجھاتے ہی رہے، اور جب اِن سے ذراسی فرصت ملتی بیرونِ ممالک کبھی سرکاری تو کبھی نجی دوروں پر سیرسپاٹے کے لئے نکل پڑتے، یوں ہمارے سبکدوش ہونے والے صدر اپنے عہدے صدارت کے پانچ سال ملکی معاملات کے حل کے حوالوں سے غیرسنجیدہ رہ کر گزار گئے ہیں۔ اب جبکہ صدر زرداری ملک کے صدرنہیں رہے ہیں، آج یہ ایک عام پاکستانی شہری کی حیثیت سے پاکستان میں مقیم ہیں، اِنہیں عہدے صدارت میں حاصل کئی استسنی کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس کے بعد صدر زرداری پاکستان میں رہ کر خود پر بنائے گئے کتنے مقدمات کا سامنہ کرتے ہیں، اور یہ کتنے عرصے پاکستان میںرہ کراپنی پارٹی کا نظام چلاتے ہیں، یہ تو آنے والے دنوں میں لگ پتا جائے گا، کہ سبکدوش ہونے والے صدر اپنے پارٹی امور کو پاکستان میں رہ کر چلاتے ہیں یا اگلے انتخابات تک کسی بیرونِ ملک میں قیام پذیررہ کراپنی ذمہ داریاں اور ملکی سیاست میں حصہ لیں گے نو ستمبر کو نو منتخب صدر ممنون حسین اٹھائیں گے اور اِس کے بعد عہدے صدارت اِن کے ہاتھ لگ جائے گا، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے منتخب صدر ممنون حسین سبکدوش ہونے والے صدر زرداری کی طرح یہ بھی کسی مصالحت پسندی، مفاہمتی پالیسی اور مفاہمتی عمل کی گٹھڑی کو اپنے سر اور کاندھوں پر اٹھاکر اِس کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔

یا دانستہ طور پر کوئی اِنہیں اِس کے بوجھ تلے دبادیتاہے یا یہ اپنی حکمت اور دانش سے اِس گٹھڑی کو نذرِ آتش کرکے ملک اور قوم کو درپیش بحرانوں اور مسائل سے نکالنے کا بھی سامان کرتے ہیں اور خود کو ملک اور قوم کا ممنون بناکر پیش کرتے ہوئے اِن کے مسائل بھی حل کرتے ہیں، اب یہ ذمہ داری نومنتخب صدر ممنون حسین کے کاندھوں پر ہے کہ یہ ملک اور قوم کے سامنے سبکدوش ہونے والے صدر زرداری کی طرح بن کر پیش ہوتے ہیں یاقوم اور ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے عہدے صدارت کی فکر کئے بغیرڈٹ جاتے ہیں؟

تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com