امریکی سینیٹ نے یمن میں امریکی افواج کی واپسی کے بل کی منظوری دے کر صدر ٹرمپ سے سعودی عرب سے فوجی اتحاد ختم کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ اس طرح اب امریکی صدر ٹرمپ کو امریکی افواج کے انخلا کے لئے امریکی انتخابات سے قبل جلد ازجلد فیصلے کرنا ہونگے۔ صدر ٹرمپ نے شام ، افغانستان سے امریکی افواج کو واپس بلانے کا فیصلہ کرکے خود امریکی اعلیٰ حکام اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو حیران کردیا تھا۔امریکی صدر شام ، افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا چاہتے ہیں ، عراق میں رہنا چاہتے ہیں تو یمن سے امریکی تعاون کے خاتمہ بھی چاہتے ہیں۔مملکت شام کی برسوں برس کی خانہ جنگی میں عالمی قوتوں کی مداخلت اور بشار رجیم کی معاونت کے لئے ایران اور روس نے کھل کر بشار الاسد کی حمایت کی۔ شام میں امریکی مداخلت ، داعش کے خلاف ترکی اور سعودی عرب کی ایما پر شروع کی گئی تو امریکی منصوبہ یہ بھی تھاکہ مشرق وسطی میں اسرائیل کو بچانے کے لئے ایران اور روس کے ساتھ شام کے فاروڈ بلاک کو کمزور کیا جائے۔
مملکت شام عالمی قوتوں کے درمیان جنگ کا اکھاڑہ بنی اور عالمی قوتوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور شکست دینے کے لئے شامی سرزمین کاکھل کر استعمال کیا ۔ عراق میں داعشی فتنے کی شکست کے بعد شام میں شکست ملی۔ کئی اہم شہر عراق و شام میں داعش کے قبضے سے آزاد کرائے گئے ۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ داعش کے خاتمے کے لئے اس کی سیکورٹی فورسز اور جنگجو ملیشیا ئوں نے اہم کردار ادا کیا ۔ اس لئے اب ایرا ن مستقبل میں داعش کو دوبارہ مستحکم نہ ہونے کے لئے ان ممالک سے ایرانی جنگجو گروپوں کا انخلا نہیں کرے گا ۔ جب کہ عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے عراق میں داعش کے خاتمے کے لئے سعودی فرماں روا کا شکریہ ادا کیا ہے کہ سعودی عرب کے تعاون کی وجہ سے عراق سے داعش کا خاتمہ ہوا۔ عراق سے داعش کے خاتمے یا کمی کے لئے سعودی حکمت عملی دراصل امریکی فوجی کو عراق میں رکھ کر انہیں داعش کے خلاف استعمال کرنے میں مکمل مالی معاونت اور حمایت تھی۔ لیکن یہ ایران کے لئے قابل قبول کبھی نہیںکہ عراق میں جنگ کے خاتمے اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی امریکی افواج صرف اس لئے عراق میں موجود رہیں کیونکہ امریکا چاہتا ہے کہ وہ ایران پر عراق میں رہ کر نظر رکھے گا۔
شام سے امریکی فوجیوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے لیکن یہ بات اہم ضرور ہے کہ بشار مخالف قوتوں کی امداد کے ساتھ ساتھ بشار مخالف جنگجو ملیشیائوں کے خلاف امریکا نے بے دریغ بمباریوں کے لئے اپنی فضائی قوت کا استعمال کیا ۔ دوسری جانب امریکی حلیف جنگجو ملیشیا ئوں کے خلاف شامی سیکورٹی فورسز کی امداد کے لئے ایران کی جانب سے بھیجے جانے والے جنگجو گروپوں اور پھر روس کی شمولیت نے شام کو عالمی قوتوں کی طاقت کا اکھاڑہ بنا دیا ۔روس نے ترکی پر الزام لگایا کہ وہ شام میں موجود داعش سے ارزاں نرخوں پر تیل خرید رہا ہے ، جس پر ترکی کے صدر طیب اردوغان کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور انہوں نے روسی صدر کے بیان کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان پر یہ الزام ثابت ہوگیا تو وہ ترکی کی صدارات بھی چھوڑ دیں گے۔
امریکی صدر نے مملکت شام کے ساتھ افغانستان سے انخلا کے لئے افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات شروع کردیئے اور گزشتہ دنوں قطر اجلاس کے پانچواں دور تقریبا 16دن جاری رہے اور دو اہم نکات پر مزید پیش رفت پر مشاورت کے لئے دونوں وفود نے وقفہ لے لیا۔ تاکہ امریکی صدرکے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد صدر ٹرمپ سے مشاورت سے نئے سیکورٹی معاہدے کے شقوں کو حتمی شکل دیں سکیں اس وقت افغان طالبان اور امریکا کے دو رابطہ کار ٹیمیں امریکی افواج کے انخلا کا شیڈول و طریقہ کار طے کرنے کے لئے قائم ہیں۔ جو امریکی افواج کے مکمل انخلا کو یقینی و محفوظ بنانے کے لئے لائحہ عمل طے کررہے ہیں ، دوئم اہم ترین نکتے میں افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردوں کے استعمال اور بیرونی ممالک کے خلاف استعمال نہ کرنے کی ضمانت میں افغان طالبان نے مکمل یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان کی سرزمین اس سے پہلے بھی کبھی کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور مستقبل میں بھی کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی و ضمانت دی جائے گی ۔ پاکستان ، سعودی عرب اور متحدہ امارات اس حوالے سے دونوں فریقین کے درمیان ضامن بننے میں مکمل تعاون پرتیار ہیں ۔ نیز روس ، ترکی ، چین اور ایران نے افغانستان میں امریکی افواج کے مکمل انخلا کے حوالے سے ثالثی سمیت ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی پہلے ہی کراچکے ہیں۔تاہم ان مذاکرات میں دو اہم فریق کی جانب سے رخنہ پیدا ہونے کا خدشہ رہا ۔ اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ افغان امن تنازع کے حل کی تمام کوششوں کو کابل اشرف غنی انتظامیہ اور بھارت ناکام بنانے کی بھرپور کو شش کریں گے۔کابل انتظامیہ کی جانب سے ہر مذاکرات میں عدم شمولیت پر ناراضگی کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ افغانستان میں امن تنازع حل کے لئے انہیں کلیدی کردار دیا جائے ۔ لیکن افغان طالبان موجودہ کابل انتظامیہ کو قانونی و عوام کی منتخب نہیں سمجھتی۔
امریکی سینیٹ نے افغانستان اور شام سے فوجی انخلا کے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت کردی۔تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے فیصلہ کیا گیا تھا کہ شام اور افغانستان سے اپنی فوج کا انخلا یقینی بنائیں گے تاہم فروری 2019میں سینیٹ نے اس فیصلے کی مخالفت کردی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق” امریکی فوج کے شام اور افغانستان سے انخلا کے خلاف بل سینیٹ میں پیش کیا گیا، بل کی حمایت میں 70 جبکہ مخالفت میں 26 ووٹ پڑے۔سینیٹ میں پیش کیے جانے والے بل میں موقف اختیار کیا گیا کہ فوجی انخلا کے فیصلے سے خطے کی سا لمیت کو خطرات لاحق ہوں گے، شدت پسند تنظیمیں داعش اور القاعدہ دوبارہ اپنی جڑیں مضبوط کرسکتی ہیں۔بل کے مطابق ان دونوں ملکوں سے انتہائی عجلت میں امریکی دستوں کا انخلاء سخت مشکل سے حاصل کی جانے والی کامیابیوں کو ناکامی میں تبدیل کردے گا۔خیال رہے کہ گذشتہ دنوں ری پبلکن سینیٹر مچ میک کونیل نے کہا تھا کہ داعش اور القائدہ سے اب بھی خطرات ہیں، امریکی افواج کی واپسی سے قومی سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگ زدہ علاقوں سے افواج کی واپسی تباہ کن ہوسکتی ہے، یہ وقت دہشت گردی کے خلاف اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے”۔یہاں دو اہم معاملات کھل کر سامنے آتے ہیں کہ صدر ٹرمپ شام و افغانستان کی جنگ سے باہر نکلنا چاہتے ہیں لیکن مخصوص مفادات کے تحت خود امریکی اسٹیبلشمنٹ امریکی صدر کے فیصلوں میں حائل ہو رہی ہے۔ مبصرین اور تھنک ٹینک کے درمیان ان ہی خطوط پر اختلافات ہیں کچھ ”امریکی افواج کی تعیناتی پر سول اٹھا رہے ہیں اور یہ پوچھ رہے ہیں کہ ایسی جنگ میں شامل رہنا جس میں کسی کی جیت ممکن نہیں کا کیا مطلب ہے۔ ‘ یہی سوال امریکی صدر اپنی اسٹیبلشمنٹ سے پوچھ رہے ہیں کہ دوٹریلین ڈالر کے اخراجات کے بعد بھی افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکا اور اہداف حاصل ہونے کے بعد شام اور افغانستان میں رہنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے صائب سوال پر سخت ردعمل امریکن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے آیا ۔ شام میں تعینات امریکی فوجیوں کے انخلاء کے حکم نامے پر مستعفی ہونے والے وزیر دفاع جیمز میٹس نے دستخط کیے تھے اور حکم نامے پر امریکی افواج کا شام سے نکلنے کا مکمل شیڈول بھی طے ہوا تھا ۔پہلے100دن میں امریکی افواج کے انخلا کا اعلان کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں شیڈول نہ دینے کا اعلان کیا گیا جس پر ترکی نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکی افواج نے انخلا میں مزید تاخیر کی تو وہ مشرقی شام میں ترک مخالف کرد کے خلاف حملہ کردے گا ۔ امریکی صدر کے اچانک فیصلے پر شام سے امریکی فوج کے انخلا سے متعلق ٹرمپ کے بیان پر امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس ناراض ہوکر عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ بعد ازاں امریکی وزیر دفاع کے بعد امریکا کے نائب وزیر خارجہ بریٹ میک گروک نے بھی استعفیٰ دیا۔ امریکی سفیر کے مطابق امریکی صدر کا اعلان انتہائی پریشان کن ہے۔ صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون کے چیف آف اسٹاف کیون سوینی بھی 2 سال خدمات سرانجام دینے کے بعد مستعفی ہوئے۔کیون سوینی، سابق سیکرٹری دفاع جیمز میٹس کے ماتحت تھے، جنہوں نے 20دسمبر کو امریکی صدر کی جانب سے شام سے انخلا کے فیصلے پر مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ خیال رہے کہ کیون سوینی ایک ماہ میں عہدہ چھوڑنے والے تیسرے پینٹاگون کے اعلیٰ افسرہیں۔ صدر ٹرمپ کے شام سے انخلا پر خود پینٹاگون نے بھی اعتراضات کئے” امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا کہنا تھا”کہ شام سے امریکی فوج کے انخلا کا دارومدار چند شرائط پورا ہونے پر ہے۔ بولٹن کے بیان نے اس خیال کو مزید تقویت دی ہے کہ امریکہ شام سے انخلا نہیں کرنا چاہتا ہے۔ جان بولٹن نے کہا کہ امریکہ انخلا سے قبل ترکی سے شمالی شام میں کردوں کی حفاظت کی یقین دہانی چاہتا ہے اور داعش کی باقیات کی شکست چاہتا ہے۔ گو کہ امریکی وزیر خارجہ نے شام سے 2000امریکی فوجیوں اور جنگی ساز وسامان کی واپسی کی تصدیق کی تھی لیکن صدر ٹرمپ کو شدید مخالفت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کے موقف میں بھی تبدیلی کے آثار مل رہے ہیں۔
امریکا کے وزیر دفاع جیمز میٹس نے شام سے انخلا سے قبل یمن سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے حوالے سے بھی کہا تھا ”کہ یمن سے امریکی فوجی امداد کا انخلا اور شراکت دار ممالک کو ہتھیارو ں کی فروخت روکنا ایک گم راہ کن اقدام ہوگا”۔ا ن کا مزید کہنا تھا کہ ” یہ ہمارے مفاد میں ہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی کو روکیں، ایرانی اثرونفوذ کامقابلہ کریں،حوثیوں کے ایران کے مہیا کردہ راکٹوں اور بغیر پائیلٹ طیاروں کے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اور ان کی شہری آبادیوں پر حملوں کو روکیں”۔انھوں نے کہا کہ” ہماری محدود فوجی امداد کی دستبرداری سے عرب اتحاد کے الحدیدہ کی بندرگاہ کے خلاف کارروائی کو ملتوی کرنے کا جواز ملے گا۔ ہماری لاتعلقی اور اثر ورسوخ کے خاتمے کے نتیجے میں انسانی بحران میں شدت پیدا ہوگی”۔جیمز میٹس نے امریکی سینیٹروں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو یہاں تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لگا ہے۔ تاہم دسمبر2018میں امریکی کانگریس نے یمن میں امریکی تعاون کے خاتمے کے لئے قرارداد جمع کرائی گئی تھی جو41کے مقابلے میں56ووٹوں سے منظور کی گئی ۔ قرار داد کے بعد ضروری تھا کہ ایوان نمائندگان بھی اس کی منظوری دیں جو 14مارچ کو امریکی نمائندگان نے دے دی کہ امریکا یمن جنگ سے باہر ہوجائے۔” اس کا واضح مقصد سعودی عرب پر امریکی دبائو بڑھانا بتایا جاتا ہے۔
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پرصدر ٹرمپ اپنے انتخابی منشور پر جہاں عمل درآمد کررہے ہیں تو اس سے قبل انہوں نے کوشش کی کہ افغان طالبان کو شکست دیں لیکن صدر ٹرمپ کو بدترین ناکامی کا سامنا ہوا ۔ افغانستان سے امریکی افواج کی راہ میں صدر ٹرمپ کو دشواریوں کا سامنا ہے۔امریکی محکمہ دفاع نے کانگریس کو بتایا ہے کہ جنگ زدہ افغانستان میں طالبان پر دبائو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ پینٹاگون کی جانب سے حکمت عملی دستاویزات کانگریس میں جمع کرا گئے میں واضح طور پرصدرٹرمپ کے افغانستان سے نصف امریکی فوج واپس بلانے کے فیصلے کی مخالفت کی گئی ہے۔پینٹاگون نے کانگریس کو بتایا کہ ”امر یکہ کو افغانستان میں نہ صرف اپنی فوج کی موجودگی کو یقینی بنانا بلکہ فوجیوں کی طالبان کے خلاف کارروائیوں کو بھی برقرار رکھنا چاہیے”۔پینٹا گون کے چیف نے دعوی کیا ہے کہ” واشنگٹن افغانستان سے اپنے فوجیوں کی یکطرفہ واپسی نہیں کرے گا اور امن مذاکرات میں کابل حکومت کو لازمی حصہ بنایا جائے”۔ قائم مقام اور امریکی وزیر دفاع پیٹ شنھان نے کہا کہ” افغانستان نے امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ نیٹو سے مشاورت کے بعد ممکن ہوگا”۔انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔ پیٹریک شنہان نے بیان دیا کہ” واشنگٹن اکیلا ہی فیصلہ نہیں کرے گا”۔ادھر نیوٹ سربراہ سٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ ”افغان فوج کی سپورٹ جاری رکھے گی” ۔نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینفر سٹولٹنبرگ نے” اشرف غنی کی افغان حکومت کی امن مذاکرات میں شمولیت میں تاخیر پر خبردار کیا”۔افغان صدر اشرف غنی نے بھی اپنے مراسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے امریکی فوجیں افغانستان میں رہنے کی اپیل ہے”۔
شام ، یمن اور افغانستان میں امریکی مداخلت کے خاتمے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کا کردار بڑا واضح ہے ۔ جس کی کئی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ جنگی آلات فروخت کرنے والی کمپنیوں کا اثر رسوخ بتایا جاتا ہے کہ اس طرح امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں زیادہ سے زیادہ جنگی آلات فروخت کرنا چاہتی ہیں ۔ امریکی معیشت کا دارو مدار مختلف ممالک اور ترقی پذیر ممالک کو اپنی شرائط پر جنگی ساز و سامان فروخت پرہے ۔ یہی وجہ قرار ی جا رہی ہے کہ اگر امریکا کے تین اہم ممالک سے الگ ہونے سے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو نقصان پہنچے گا ۔ اس وقت امریکا دنیا بھر میں مختلف خانہ جنگیوں میں براہ راست فریق بنا ہوا ہے ۔ امریکی عوام کے ٹیکس و وسائل بے مقصد خانہ جنگیوں میں صرف ہو رہے ہیں۔ امریکی صدر اپنی عوا م کو روزگار سمیت کئی انتخابی وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں دشواری کا سامنا کررہے ہیں ۔ امریکی صدر اپنے انتخابی منشور کے مطابق عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں لیکن خود کانگریس اور ان کی اپنی جماعت کے اراکین بھی ان کی راہ میں رکائوٹ بنے ہوئے ہیں۔ امریکا کے لئے سب سے بڑا مسئلہ جنگوں میں فریق بننے کا ہے ۔امریکی عوام کا مطالبہ ہی رہا ہے کہ جب امریکا نے افغانستان میں اپنے اہداف اسامہ بن لادن کو ہلاک کرکے حاصل کرلئے ہیں تو افغانستان میں مزید بلا جواز موجودگی سے امریکی عوام متاثر ہو رہے ہیں۔
شام کی جنگ میں امریکی صدر نے خود عرب ممالک سے مطالبہ بھی کیا کہ وہ مشرق وسطی میں امریکی خدمات پر معاوضہ ادا کریں کیونکہ وہ عرب ممالک کے لئے امریکی فوجوں کو استعمال کررہے ہیں۔ عراق میں موجودگی کا جواز ایران پر نگرانی اور افغانستان میں رہنے کی وجہ چین پر نظر رکھنے کے لئے بتایا جاتا ہے۔ ایران اس وقت براہ راست ، عراق ، شام اور یمن خانہ جنگی میں ایک فریق کی حیثیت سے شریک رہا ہے۔ ایران کے مقاصد میں اسرائیل ،سعودی عرب اور یو اے ای کو دبائو میں رکھنا اور اُن ممالک میں ریاستی تبدیلی شامل ہے۔ جس بنا پر خلیج میں ایک نہ رکنے والی جنگ سے امریکا اور دیگر اسلحہ ساز عالمی قوتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ٹریلین ڈالرز کے دفاعی معاہدے کئے جس کی عرب ممالک کو کبھی ضرورت نہیں پڑتی لیکن ایک مخصوص منصوبے کے تحت ایک ایسا جنگی ماحول پیدا کردیا جس کی وجہ سے عرب ممالک تیل سے حاصل وسائل اور افرادی قوت اتحادی ممالک پر اپنی حفاظت کے لئے خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔دنیا بھر میں ہتھیاروں کی فروخت کے لحاظ سے امریکی کمپنیاں نمایاں رہیں۔ ان کمپنیوں نے مجموعی طور پر 226 ارب 60 کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کیے۔ یہ رقم 100 چوٹی کی کمپنیوں کی کل فروخت کا 57 فی صد ہے۔100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں 47 امریکی ہیں جو دنیا بھر میں اسلحے کی نصف تعداد تیار کررہی ہیں جب کہ دنیا کی 10 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں 5 امریکی ہیں۔ امریکی کمپنی لاک ہِیڈ مارٹن اول نمبر پر براجمان ہے جس نے 44 بلین ڈالرز کا کاروبار کیا۔دفاعی ساز و سامان کی تیاری میں روس نے برطانیہ سے اعزاز چھین کر دوسرے نمبر پر قدم جمالیے، تیزی سے ترقی کے منازل طے کرنے والی روسی کمپنی ‘الماز آنتے’ پہلی بار 10 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں شامل ہوئی۔ برطانیہ بدستور مغربی یورپی ممالک کو اسلحہ فراہم کا سب سے بڑا ملک ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنازعات کی طویل فہرست ہے۔ اب ان تحفظات کا اظہار ذرائع ابلاغ میں جگہ پیدا کررہا ہے کہ امریکی اور عالمی قوتیں اسلحہ ساز کمپنیوں کی ایما پر نئی جنگی منڈیاں بنانے کی منصوبہ بندی پر مصروف ہیں۔امریکی صدر اس وقت امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول شخصیت ثابت نہیں ہو رہے ، کیونکہ امریکی صدر کسی بھی ملک سے تعلقات کو امریکی مفادات کے میزان میں رکھتے ہیں کہ بے پناہ اخراجات سے امریکا کو کیا فائدہ پہنچا ہے۔ امریکی صدر کی سوچ میں امریکا کے مالی و سیکورٹی مفادات کا تحفظ فوقیت رکھتا ہے لیکن ان کے ارادوں میں امریکی اسٹیبلشمنٹ حائل نظر آتی ہے۔واضح نظر آرہا ہے کہ اگر خانہ جنگی و بے معنی جنگوں کا خاتمہ ہوگا تو اس سے براہ راست با اثر اسلحہ ساز کمپنیاں متاثر ہونگی۔ لہذا اسلحہ کی فروخت کے لئے جنگی ماحول و خوف ضروری ہے۔ جس سے کوئی بھی مہنگے جنگی ساز و سامان خریدنے پر مجبور ہو۔ اس کے لئے عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے عالمی ذرائع ابلاغ کو بھی استعمال کیا جاتا ہے جو اپنے مضامین اور اداریوں میں کسی بھی ملک کے جنگی آلات پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں یا پھر مخصوص ڈائریکشن میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ اس کا ایک مثال بھارت ہے جس کے جنگی سازو سامان پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔ گو کہ بھارت کو کسی بھی پڑوسی ملک سے کوئی خطرہ نہیں لیکن جنگی منڈی میں بھارت کی طرح کئی ممالک اپنی عوام کا پیسہ جنگی جنون کی مہم میں جھونک رہے ہیں۔