صدر ٹرمپ کے فیصلے سے امن عمل متاثر نہیں ہو گا: وائٹ ہاؤس

Protest

Protest

واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ نے اس تاثر کی تردید کی ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری امن عمل سے دستبردار ہوگیا ہے۔

جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے کہا کہ یروشلم سے متعلق اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے واضح کردیا تھا کہ امریکہ پہلے کی طرح ہی امن عمل سے منسلک ہے اور وہ فریقین پر مذاکرات اور بات چیت کے لیے دباؤ ڈالتا رہے گا۔

ترجمان نے کہا کہ فلسطین اسرائیل تنازع کے تمام فریقین ہی آخرِ کار ایک امن معاہدے تک پہنچنا چاہتے ہیں اور امریکہ بھی سب سے بڑھ کر یہی چاہتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے بدھ کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر عالمی برادری اور مسلم ملکوں نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کے حکام نے صدر ٹرمپ کے اعلان کے ردِ عمل میں کہا تھا کہ اس فیصلے کے بعد امریکہ مشرقِ وسطیٰ امن عمل میں ایک ایمان دار ثالث کی حیثیت کھو بیٹھا ہے اور اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت کرکے تنازع کا فریق بن گیا ہے۔

تاحال امریکہ کے کسی اتحادی ملک نے بھی صدر ٹرمپ کی اتباع میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان نہیں کیا اور صحافیوں سے اپنی گفتگو میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا۔

سارہ ہکابی سینڈرز نے کہا کہ وہ ایسے کسی ملک کے بارے میں نہیں جانتیں جس سے یہ امید ہو کہ وہ عنقریب امریکہ کی طرح اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کردے گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہیں کہ کوئی ملک بھی ایسا نہیں کرے گا بلکہ ان کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ ایسے کسی ملک سے واقف نہیں جو یہ فیصلہ کرنے کا سوچ رہا ہو۔

امریکی صدر کے اعلان کے بعد اسرائیل میں تعینات روس کے سفیر الیگزنڈر شین نے کہا ہے کہ اگر فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان فلسطینی علاقوں کی حد بندی سے متعلق تمام معاملات طے پاجائیں تو پھر روس بھی اپنا سفارت خانہ مغربی یروشلم منتقل کرسکتا ہے۔

روس کی وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ روس مشرقی یروشلم کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ بالکل اسی طرح روس یروشلم کے مغربی علاقے کو اسرائیل کا دارالحکومت مانتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کا یروشلم کی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تقسیم سے متعلق دو ٹوک موقف اسرائیلی حکومت کے لیے حیرت کا باعث بنا ہے کیوں کہ اسرائیلی حکومت پورے یروشلم کو اپنی ملکیت قرار دیتی ہے۔

گوکہ عالمی برادری اسرائیل کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتی لیکن روس کی جانب سے یروشلم کی منقسم حیثیت پر یہ پہلا واضح بیان ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیرِ دفاع جِم میٹس کو صدر ٹرمپ کی جانب سے یروشلم سے متعلق فیصلے کے اعلان کے وقت پر سخت تحفظات تھے لیکن اس کے باوجود صدر ٹرمپ نے اس کا اعلان ضروری سمجھا۔

صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کے کئی علاقوں میں فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں جن میں درجنوں افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

اعلان کے بعد امریکی محکمۂ خارجہ نے دنیا بھر میں امریکی شہریوں کے لیے ٹریول الرٹ جاری کیا ہے جس میں انہیں محتاط رہنے اور اپنی سکیورٹی کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔