امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) ریاست اوکلاہوما میں جلسے کے بارے میں صدر ٹرمپ کا دعویٰ تھا کہ انہیں سننے کے لیے دس لاکھ لوگ آنا چاہتے ہیں۔ تاہم انیس ہزار لوگوں کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں خالی کرسیوں اور شرکا کی ناکافی تعداد نے ان کا خیرمقدم کیا۔
کورونا بحران کے تین ماہ کے دوران صدر ٹرمپ کی يہ پہلی بڑی انتخابی ریلی تھی۔ اتوار کو سی این این نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ صدر ٹرمپ کے ناقدین نے سوشل میڈیا کمپنی ٹِک ٹاک پر ایک پلان کے تحت اپنے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ جلسے کی دھڑا دھڑ مفت ٹکٹیں لے لیں اور پھر شرکت نہ کریں
اس بارے میں سی این این نے میری جو نامی ایک ٹِک ٹاک صارف کا حوالہ دیا جو ایک ویڈیو میں لوگوں کو تلقین کر رہی ہیں کہ اس کا مقصد ٹرمپ کا جلسہ ناکام بنانا ہے۔
تاہم صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے اہلکاروں نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ جلسے میں کم لوگ آنے کی وجہ مخالفین کی کوئی ٹِک ٹاک مہم ہے۔ ایک بیان میں”ٹرمپ ٹونئنٹی ٹونئنٹی‘‘ ٹیم نے کہا کہ جلسے کے لیے جعلی ٹکٹیں لے کر اسے فلاپ کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم کے انچاج ڈاریکٹر بریڈ پارسکیل نے کہا، ”خود کو جلسے کی ناکامی پر مبارکبادیں دینے والے بائیں بازو کے لوگ اور آن لائن ٹرولز کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں یا ہمارے جلسے کس طرح منعقد کیے جاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کسے بھی جلسے سے پہلے ان کی ٹیم اس بوگس بکنگ کی نشاندہی کرکے اسے خارج کردیتی ہے تاکہ انہیں لوگوں کی متوقع تعداد کا صحیح اندازہ ہو سکے۔ ٹیم ٹرمپ کے مطابق ٹُلسا اوکلاہوما کے جلسے سے پہلے بھی دسیوں ہزار جعلی بُکنگز خارج کر دی گئیں تھیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جلسے میں کم لوگ پہنچ سکے کیونکہ کئی شرکا کو راستے میں ٹرمپ مخالف مظاہرین نے اسٹیڈیم تک نہیں پہنچنے دیا۔ انہوں نے جلسے کی ناکامی کے لیے امریکی میڈیا کو بھی مورودِ الزام ٹہرایا۔
مبصرین کے مطابق اس جلسے میں صدر ٹرمپ کی تقریر میں نہ کورونا وبا سے متعلق کوئی اہم بات تھی اور نہ ہی امریکا میں نسلی امتیاز پر بڑھتی ہوئی بے چینی پر۔ ان دونوں اہم معاملات پر انہوں نے کوئی قابل ذکر بات نہيں کی۔ امریکی میڈیا کے مطابق اس جلسے میں خالی کرسیوں اور لوگوں کی کم شرکت پر صدر ٹرمپ نے اپنی ٹیم پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔