صدر ٹرمپ کا پابندیوں کا فیصلہ منچلا پن ہے، ہم اس پر آمنا و صدقنا نہیں کہہ سکتے: صدر ایردوان

Recep Tayyip Erdoğan

Recep Tayyip Erdoğan

انقرہ (جیوڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پابندیوں کا فیصلہ منچلا پن ہے۔ صدر ایردوان نے صدارتی سوشل کمپلیکس میں 10 ویں سفیروں کی کانفرنس میں دئیے گئے ظہرانے میں شرکاء سے خطاب کیا۔

خطاب میں صدر ایردوان نے کہا کہ حالیہ سالوں میں بین الاقوامی سطح پر ترکی نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کی وجہ سے اسے ہدف بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں دیگر شعبوں کی طرح اقتصادیات میں بھی ترکی کو ایک محاصرے کا سامنا ہے۔

صدر ایردوان نے کہا کہ ترکی پر حملوں کا آغاز سال 2013 میں گیزی پارک واقعات سے شروع ہوا ، اس کے بعد 17 سے 25 دسمبر کو عدلیہ کی طرف سے حملے کا اقدام اور پھر 15 جولائی 2016 کو حکومت پر غدارانہ حملے کا اقدام کیا گیا اور یہ چیز واضح دکھائی دے رہی ہے کہ حملوں کا یہ سلسلہ کچھ عرصہ مزید جاری رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ ان حملوں کا ہدف ترکی کی آزادی، اقتصادی مفادات، ملّی وقار، حیثیت اور شخصیت ہیں اور ہمیں ان حملوں کی دیگر مختلف شکلوں کے لئے بھی تیار رہنا چاہیے۔ حالیہ سالوں میں دہشتگردی سے لے کر اقتصادی ساز باز تک جن مسلسل آپریشنوں کا ہمیں سامنا ہوا ہے ان کا اصل سبب ہمارا ملّی مفادات کے موضوع پر ایک غیر متزلزل روّیہ اختیار کرنا ہے۔

صدر ایردوان نے کہا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے ہمارے خلاف جس کھیل کا تانا بانا بُنا گیا تھا اس کا پول بھی ہم نے جلد ہی کھول دیا اور اس پر قابو پا لیا۔ شام میں داعش کے خلاف جدوجہد کے بہانے سے ترکی کے گرد دہشتگردی کے جس کوریڈور کو تشکیل دینے کی کوشش کی جا رہی تھی اس پربھی ہم رضا مند نہیں ہوئے۔

صدر ایردوان نے کہا کہ منی ایکسچینج کے حالات کی کوئی اقتصادی بنیاد موجود نہیں ہے اور ہر کوئی اسے قبول کر رہا ہے کہ یہ صرف ترکی پر ایک حملہ ہے۔

یہ بھی پڑھئیے: ہم تجارتی جنگ کا جواب نئے اتحاد بنا کر اور نئی شرکت داریاں قائم کر کے دیں گے: صدر ایردوان

صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” میں نے چاہا کر دیا۔ رات کو سوئے صبح اٹھ کر لوہے اور اسٹیل پر کسٹم لگا دیا ،جیسے مان مانے فیصلوں کا آپ کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو بین الاقوامی سطح پر آپ کا کیا اعتبار رہے گا”۔

صدر ایردوان نے کہا کہ ایک طرف تو آپ ہمیں اسٹریٹجک ساجھے دار کہیں اور دوسری طرف ساجھے دار کے پیروں پر گولیاں برسائیں۔ ایک طرف ساجھے دار افغانستان میں ، صومالیہ میں اور نیٹو میں آپ کے ساتھ ہو اور دوسری طرف آپ اس کی پیٹھ میں چُھرا گھونپیں۔ کیا ایسی چیز کو قبول کیا جا سکتا ہے؟ ہم اس سب پر آمنا و صدقنا نہیں کہہ سکتے۔

صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ ان حملوں کے مقابل ہم اپنے تمام شعبوں کے ساتھ مل کر ضروری اقدامات کرنا جاری رکھیں گے۔ ترکی کی اقتصادیات مضبوط ، طاقتور اور بر محل ہے اور اسی شکل میں آگے بڑھنا جاری رکھے گی۔