تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید ترکی ہمیشہ سے ہی پاکستان کا انتہائی قریبی برادر اور دوست ملک رہا ہے۔ترکی کی دوستی پر بھی ہم چین کی دوستی کی طرح فخر واعتبار کر سکتے ہیں۔ترکی ہر آڑے وقتوں میں ہمارا ہمدرد اور غمگسار بھائی اور دوست رہا ہے۔ 1965 اور 1971 پاک ہند جنگوں میں ترکی ایک بھائی اور قابل اعتماد دوست کی حیثیت سے ہمارے شانہ بشانہ کھڑارہا۔2005 کے زلزلے میں بھی ترکی ہی ہمارا سب سے زیادہ قابل اعتماد برادر ثابت ہوا تھا۔اس ملک نے دامے درہمے سُخنے غرض یہ کہ ہر ہر طریقے سے ناصرف ہماری اس بری گھڑی میں مدد کی بلکہ ہمارا حوصلہ بھی بڑھایا۔ترکی کے موجودہ صدر طیب اردوان ایک سچے اور نڈر مسلمان ہیں جب اسرائیل نے فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے اور فلسطینیوں کے تمام معاشی راستے بلاک کر دیئے تواردوان نے بحیثیت وزیر اعظم ترکی اسرائیلی جارحیت کے خلاف ناصرف بھر پور آواز اٹھائی بلکہ فلسطینیوں کی مدد کو پہنچنے والے فیئری فوٹیلااور دیگر قافلوں میں شامل ہوکر ساری دنیا کو فلسطینیوں کی مدد و حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔جس کے نتیجے میں ترکی کو جانی نقصانات بھی اسرائیل کی جارحیت سے اُٹھانا پڑے اور اس حوالے سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی منقطع کرنے میں ترکی نے ذرادیر نہ کی۔
آج ہی چھ سالوں کے بعد اسرائیلی سفیر کو ترکی میں آنے کی اجازت ہوئی ہے۔ ایسا سچا مسلمان اور پاکستان کا بہترین ہمدرد ،سچا مسلمان بھائی طیب اِردوان آج صدر پاکستان جناب ممنون حسین کی دعوت پر بحیثیت صدرِ ترکی پاکستان کے دورے تشریف لے آئے ہیں تو ساری پاکستانی۔ قوم اپنے محسن ملک کے صدر کیلئے اپنی نگاہیں فرش راہ کرتی ہے۔چند ناعاقبت اندیشوں کے علاوہ ساری پاکستانی قوم صدر اردوان کو دل کی گہرائیوں سے خو ش آمدید کہتی ہے اور اپنے مخلص و مہربان دوست کا فخر کے ساتھ استقبال کرتی ہے۔
پاکستان میں ایک یہویوں کا ایجنٹ اپنے گماشتوں کے ساتھ مشورے کر کے پاکستان کے دشمن مودی سے تو ملاقات کرنے میں انرجیٹک تھا ۔مگر صدر اردوان کو خوش آمدید کہنے میں سے کترا اس لئے رہا ہے کہ وہ اسرائیل کا بھی تو دشمن ہے۔ اور اسرائیل ان کا مائی باپ اور ان داتا ہے۔ جس کا ہر پاکستانی کو مکمل علم بھی ہے ۔جس سے فندنگ کے حصول کے لئے موصوف ایک مرتبہ پھر لندن یاترا کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ طیب اِردوان کے دورے کے سلسلے میں سیاسی اور سماجی ہر دو جانب سے یہ صدائیں آرہی ہیں کہ ترک صدر کے دورہِ پاکستان پر ہمیں اختلافات بھلا کر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدرِ ترکی طیب اِردوان کو خوش آمدید کہنا چاہیئے۔جس کے جواب میں پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ قوم کو اکٹھا کرنے کے نام پر کرپشن پر مٹی پاؤ کی قبول نہیں ۔ پی ٹی آئی کے سربراہ پاکستان کے دشمنوں سے (مودی اور اسرائیلی وزیرِ اعظم)سے ملنے میں تو فخر محسوس کرتے ہیں مگر پاکستان کے دوستوں کا استقبال کرنے سے کتراتے ہیں۔
Tayyip Erdogan Pakistan Visit
تحریکِ انساف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک ہونے سے نہ جانے کیوں خائف رہی ہے۔ہر پاکستانی یہ کہہ رہا ہے کہ غیر ملکی سربراہوں کے دور ہِ پاکستان پر سیاست نہیں کی جانی چاہئے۔ا س سے قبل بے نظیر بھٹو شہید نواز شریف سے شدید اختلافات کے باوجود بیرونی سربراہ مملکت کی آمد پر اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنا سیاسی قد بڑھا چکی ہیں۔ مگر ’’پاکستان کا نوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند ‘‘کے مترادف الٹا ترک سفیر کو مجبور کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔شاہ محمود قریشی جیسے منجھے ہوئے سیاست دان کو ترک سفیر کے پاس بھیج کر ان کی بے توقیری کرواتا ہے۔
انہوں نے ترک سفیر سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنی شرکت کے بجائے طیب اِردون سے عمران خان کی الگ ملاقات کا وقت مانگا تو ترک سفیر نے بھی عمران خان سے درخوست کی کہ پارلیمنٹ مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ پر نظرِثانی کریں اور اس طرح پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کو خفت کا منہ دیکھنا پڑ گیا۔ پی ٹی آئی کے بہت سے ارکان، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے حق میں تھے۔مگر عمران خان جو ڈکٹیٹر کی فطرت کے حامل رہنما ہیں انہیں کسی کی ناراضگی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔عمران خان نے ترک سفیر کی درخوست بھی ٹھکرادی اور کہا کہ وہ پارلیمنٹ میں نہیں جائیں گے۔
صدر طیب اِردوان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں ایک جانب مسلمانوں کے دشمنوں اور داعش کے خطرے سے آگاہ کیا تو دوسری جانب افغانستان کو دشمنوں کے نرغے میں دیکھ کر تاسف کا اظہار بھی کیا۔ اور بتایا کہ افغانستان پر اسلام دشمنوں کا غلبہ ہے جس کو ختم ہونا چاہئے۔کشمیر پر غاصب قوتوں کی ستر سالہ تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر بھی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کشمیریوں کی آزادی کا برملا اظہار بھی کیا۔کیا پاکستان کے ایسے مخلص دوست کو خوش آمدید کہنا ہر پاکستانی کا فرض نہیں ہے؟کیا پی ٹی ٗی کو اور اس کے سربراہ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔
ساری قوم طیب اِردوان کے کامیاب دورہِ پاکستان کی معترف ہے۔اور اپنے مخلص ترین مسلمان بھائی اوربہترین دوست ملک ترکی کے دل سے ممنون احسان ہیں کہ کوئی تو دنیا میں ایسا بھی ہے جو کھل کر کشمیریوں کی آزادی کی حمایت میں بات کرتاہے۔ترک قوم پاکستانیوں سے جتنی محبت کرتی ہے اُس کا اظہار ہم نے حرمین شریفین میں بھی دیکھا کہ جب کسی ترک شہری کو ہمارے پاکستانی ہونے کا علم ہوتا ہے۔ تو وہ ہم سے اس قدر محبت اور عقیدت سے ملتا ہے کہ دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ صدر ترکی کا دورہ پاکستان حکومت مخالفین کے لئے بھی اتناہی اہم تھا جتنا کسی بھی پاکستانی کے لئے۔مگر افسوس اس اہم موقع کو ناعاقبت اندیش سیاست دان نے اہمیت نہ دے کر اپنا ہی نقصان کیا ہے۔
Shabbir Khurshid
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 [email protected]