امریکی صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کے لئے، ہر آنے والا دن تنازعات میں الجھنے کا باعث بن رہا ہے، ایک کے بعد ایک متنازع بیانات اور حریفوں کے خلاف درشت و سخت لب و لہجے کے ساتھ خطابات امریکی تاریخ میں سیاسی عدم برداشت کی روایات کو توڑے جانے قرار دی جا رہی ہے۔ صدارتی انتخابات 03نومبر کو منعقد ہوں گے تاہم امریکی عوام کرونا وبا کے باعث الیکشن کے اُس ماحول سے لطف اندوز نہیں ہوسکیں گے جو صدارتی انتخابات کا مخصوص خاصہ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی مقبولیت میں سروے رپورٹس کے مطابق مسلسل کمی سے تحفظات اٹھ رہے ہیں کہ شاید انہیں وہ غیر متوقع کامیابی نہ مل سکے جو 2016میں الیکٹرول کالج سسٹم کی وجہ سے ملی تھی، واضح رہے کہ امریکا میں عام مقبول ووٹ کے بجائے آبادی کے لحاظ سے الیکڑول کالج سسٹم کے تحت انتخابات ہوتے ہیں۔ گوکہ کرونا وبا کی وجہ سے بذریعہ ڈاک رجسٹرڈ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، لیکن صدر ٹرمپ اس طریق کار پر اپنے سخت تحفظات کا برملا اظہار کرچکے ہیں۔
30جولائی 2020کواپنی ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے لکھاتھا کہ’یونیورسل میل اِن ووٹنگ 2020 نومبر کے ووٹ کو تاریخ کا سب سے زیادہ غلط اور دھوکے والا الیکشن بنا دے گی اور یہ امریکہ کے لیے ایک بڑی شرمندگی ہو گی۔‘ تاہم زیادہ تر امریکی ریاستیں اس اَمر کی خواہاں ہیں کہ کرونا صورتحال کے باعث بذریعہ ڈاک ووٹنگ کرانے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ امریکی ایوانِ نمائندگان ہنگامی قانون سازی کے ذریعے محکمہ ڈاک کو 25 ارب ڈالر دینے کے بل کی منظوری بھی دی چکی ہے۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر ٹرمپ کی جانب سے ویٹو کئے جانے کا امکان بھی ظاہر کیا گیا کیونکہ صدر ٹرمپ پوسٹل ووٹ مخالف ہیں۔امریکا کی آدھی ریاستیں ڈاک کے ذریعے ووٹ دیتی آئی ہیں، تاہم امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایسی بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ بہت سے بیلٹ کی گنتی بھی نہیں ہو گی کیونکہ وہ صحیح طریقے سے بھرے ہی نہیں گئے یا ان پر وہ نشان نہیں ہو گا جن سے پتہ چلے کہ یہ ووٹنگ کے سرکاری طور پر بند ہونے سے پہلے بھیجے گئے تھے۔بذریعہ ڈاک ووٹ کی ترسیل پر روس اور چین کی مداخلت کے الزامات کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے کہ امریکی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔
سن 1787میں جب امریکی آئین بنایا جارہا تھا تو مملکت کی وسیع حدود کے باعث مقبول ووٹ کے ذریعے انتخاب کو ناممکن سمجھا گیا، اس لئے ووٹ کی تعداد کو آبادی کے لحاظ سے تقسیم کردیا جاتا ہے، اس عمل کو الیکٹرول ووٹ کہا جاتا ہے، امریکی صدر بننے کے لیے درکار 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا ضروری ہوتے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات کی تاریخ میں امریکہ میں گذشتہ پانچ میں سے دو صدارتی انتخاب ایسے امیدواروں نے کامیاب قرار پائے، جنھیں ملنے والے عوامی ووٹوں کی تعداد ہارنے والے امیدوار سے کم تھی۔2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہلیری کلنٹن سے 30 لاکھ ووٹ کم حاصل کیے تھے لیکن وہ صدر بنے کیونکہ انھوں نے الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل کی۔ 2000 میں جارج ڈبلیو بش نے 271 الیکٹورل ووٹوں سے کامیابی حاصل کی جبکہ صدارتی انتخاب میں ناکام رہنے والے ان کے مدِمقابل ڈیموکریٹ امیدوار ایل گور کو ان سے پانچ لاکھ عوامی ووٹ زیادہ ملے تھے۔اس کے علاوہ صرف تین امریکی صدور ایسے ہیں جو پاپولر ووٹ حاصل کیے بغیر صدر بنے اور یہ سب 19ویں صدی میں ہوا جب جان کوئنسی ایڈمز، ردرفرڈ بی ہیز اور بنجمن ہیریسن صدر بنے۔
امریکا نے برطانوی بادشاہت سے بغاوت کے بعد ملک کی بنیاد جمہوریت پر رکھی تاہم ووٹ کا حق صرف زمیندار مردوں کو دیا گیا۔ آئین میں ترامیم کے ذریعہ عوام کو بنیادی حقوق دیے گئے، اس کے بعد 1920ء میں خواتین کو بھی ووٹ کا حق دے دیا گیا اور پھر 1950ء کی دہائی میں حقوق کی تحریک کے بعد سیاہ فام کو بھی ووٹ کا حق مل گیا۔ 2008ء میں سیاہ فام امریکی صدر، باراک حسین اوباما، منتخب ہوا۔ تاہم 2001ء کے واقعات کے بعد امریکی سرکار بہت سے ایسے قوانین بنا چکی تھی جس میں عوام کے حقوق سلب کیے جاتے رہے۔ حتٰی کہ 2013ء میں سیاہ فام صدرکے دور حکومت میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر کو یہ کہنا پڑا کہ آج ملک میں عملی جمہوریت موجود نہیں۔ امریکا میں آج تک کوئی خاتون صدر منتخب نہیں ہوسکی جب کہ پہلی بار کسی تارکین وطن اور سیاہ فام کو نائب صدارت کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات کے موجودہ پوسٹل سروس مرحلے پر صدر ٹرمپ کی جانب سے اعتراض کے بعد ان خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے ہنگامی اختیارات کو استعمال کرکے مدت صدارت بڑھا سکتے ہیں یا وائٹ ہاؤس خالی کرنے سے بھی انکار کرسکتے ہیں۔ امریکی صدر نے پوسٹل ووٹنگ کے حوالے سے امریکی عوام کو یہ بھی کہا کہ وہ الیکشن والے دن ووٹ بھی ڈالیں، یعنی انہوں نے پوسٹل ووٹ اور پولنگ اسٹیشن میں دوہرے ووٹ کاسٹ کرنے کا کہا جس بنا پر ٹرمپ شدید تنقید کی زد میں ہیں کیونکہ دوہرے ووٹ کا نظام رائج نہیں ہے، اس حوالے سے ووٹ شمار کرنے و پوسٹل ووٹ کے نتائج میں واضح فرق پڑ سکتا ہے اور اس کے اثرات انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوں گے۔ جس کا فائدہ صدر ٹرمپ کو پہنچ سکتا ہے جو اپنے ہنگامی اختیارات بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
امریکی انتخابات میں کامیابی کے لئے دو جماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن میں فریقین کی جانب سے سنگین نوعیت کے الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے اور سیاسی چالیں بھی استعمال ہو رہی ہیں،ری پبلکن پارٹی کی جانب سے امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی تارکین وطن(سیاہ فام) کو نامزد کرکے نسل پرستی کے خلاف ہمدردی حاصل کی کوشش کی ہے، صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی جانب سے بھارتی نژاد کاملہ ہیرس کی نائب صدر کے لیے نامزدگی کے لئے چنا گیا ہے۔امریکہ میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی سفید فام کے بجائے رنگدار نسل اور بھارت سے تعلق رکھنے والی خاتون کو بطور امیدوار اس عہدے کے لیے چنا گیا ہے۔ واضح رہے کہ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کاملہ اس سے قبل ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں جو بائیڈن کی مخالف تھیں۔صدر ٹرمپ نے بھارتی نژاد کو جہاں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے”نائب صدر کے امیدوار کیلئے کاملا ہیرس کا انتخاب ہولناک قرار دیا تو بھارتی نژاد امریکیوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے مودی سے دوستی کا راگ الاپا۔امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لیے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن جماعتیں بھارتی نژاد ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگی ہیں۔
امریکا میں تقریبا 40 لاکھ بھارتی شہری رہتے ہیں جن میں سے تقریبا 25 لاکھ افراد کو ووٹ ڈالنے کا بھی حق حاصل ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتی نژاد امریکی شہریوں کے ساتھ ایسی اچھی دوستی قائم کر لی ہے کہ آئندہ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھارتی نژاد امریکی انہی کو ووٹ دیں گے۔ جبکہ جو بائیڈن نے نائب صدر کے لئے بھارتی نژاد کا انتخاب کرکے پلڑا اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے۔
بھارتی نژاد کاملہ ہیرس کی نامزدگی سے بیشتر پاکستانی نژاد امریکیوں کو تحفظات حاصل ہیں، تو دوسری جانب نریندر مودی کشمیر پالیسی پرکاملہ ہیرس کی مخالفت سے نالاں اور ان کا جھکاؤ ٹرمپ کی جانب ہے۔کاملہ ہیرس مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370کو ختم کرنے کی بھی ناقد رہی ہیں۔ نائب صدارتی امیدوار نامزد ہوتے ہی انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کشمیریوں کو یہ یاد دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ دنیا میں اکیلے نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم کشمیر کی صورت حال کو مسلسل دیکھ رہے ہیں،اگر حالات تقاضہ کرتے ہیں تو ہمیں اس معاملے میں مداخلت کرنا ہوگی۔خیال رہے کہ کاملہ ہیرس کے نائب صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی کو جنوبی ایشیا کے ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ ملی تھی جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی والدہ کا تعلق بھارتی ریاست تامل ناڈو سے ہے اور وہ امریکا میں بھارتی کمیونٹی میں کافی مقبول ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو مسلم اکثریتی ممالک سے تسلیم کرانے میں مرکزی کردار ادا کیا جس کے باعث وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی عوام بلخصوص یہودی لابی ان کا بھرپور ساتھ دیں گی۔ تاہم امریکی صدر کے فوج مخالف متنازع بیانات سے ایسی فضا بنی جس سے یہ تاثر ابھر کا سامنے آیا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ انتخابات میں مداخلت کرسکتی ہے، جس پرامریکا کے سب سے سینئر جنرل اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ کہ وہ امریکی انتخابات میں مداخلت نہیں کریں گے اور انتخابی نتائج میں کسی بھی قسم کے تنازع کے حل میں بھی کوئی مدد نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات اور اس سلسلے میں کسی بھی تنازع کے حل کے لیے امریکی آئین اور قوانین میں طریقہ کار موجود ہے، میں اس عمل میں امریکی فوج کو نہیں دیکھ رہا۔انتخابی نتائج کے سلسلے میں فوج سے مدد لینے کی بات اس وقت سامنے آئی جب ایک انٹرویو میں صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے حریف جو بائیڈن سے سوال کیا گیا کہ اگر ٹرمپ انتخابات میں شکست کے بعد دفتر نہیں چھوڑتے تو کیا ہوگا، تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر 2020 کے صدارتی انتخابات میں شکست کی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر کا دفتر خالی نہیں کرتے ہیں کہ فوج کی مدد لی جائے۔بائیڈن نے فوج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس کو ٹرمپ سے خالی کرا لیں گے۔اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ ٹرمپ ممکنہ شکست سے بچنے کے لئے کیا اقدام اٹھاتے ہیں۔