ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے صدارتی انتخابات میں قدامت پسند امیدوار کی جیت کو دشمن کے پروپیگنڈا پر قوم کی فتح قرار دیا ہے۔
انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’گذشتہ روز کےانتخابات میں عظیم فاتح ایرانی قوم ہی ہے کیونکہ وہ ایک مرتبہ پھر دشمن کے پروپیگنڈا کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔‘‘
ایران میں جمعہ کو منعقدہ صدارتی انتخابات میں غیرحتمی نتائج کے مطابق عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی جیت گئے ہیں۔وزارت داخلہ کے ایک عہدہ دار جمال عرفی نے ایک نشری نیوزکانفرنس میں بتایا ہے کہ صدارتی انتخاب میں دوکروڑ 86 لاکھ ووٹ ڈالے گئے تھے۔ان میں 90 فی صد ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے،ووٹ ڈالنے کی شرح 48 فی صد رہی ہے اور ابراہیم رئیسی نے ایک کروڑ 78 لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں۔اس طرح انھیں ناقابل شکست برتری حاصل ہوچکی ہے۔
رہبرِاعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے ووٹوں کے ان اعداد وشمار کو ایرانی عوام کی جانب سے نظام کی حمایت کا مظہر قراردیا ہے۔واضح رہے کہ ایران میں کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد پانچ کروڑ 90 لاکھ ہے۔یہ پہلے صدارتی انتخابات ہیں جن میں ووٹ ڈالنے کی شرح 50 فی صد سے بھی کم رہی ہے۔
60 سالہ نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی کو رہبرِاعلیٰ کی حمایت حاصل تھی۔تبصرہ نگار صدارتی انتخابات سے قبل ہی ان کی جیت کا امکان ظاہرکررہے تھے۔انھوں نے 2017ء میں منعقدہ صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا مگر وہ موجودہ صدرحسن روحانی کے مقابلے میں ہار گئے تھے۔انھیں آیت اللہ خامنہ ای نے 2019ء میں ایرانی عدلیہ کا سربراہ مقرر کیا تھا۔اسی سال امریکا نے ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں پابندیاں عاید کردی تھیں۔ان پر 1980ء کے عشرے میں قتلِ عام کے واقعات میں ملوّث ہونے کے الزامات عاید کیے جاتے ہیں۔
صدارتی انتخاب میں ان کا مرکزی بنک کے سابق گورنرعبدالناصر ہمتی کے ساتھ مقابلہ تھا۔عبدالناصرہمتی کودوسرے صدارتی امیدواروں کے مقابلے میں’’اعتدال پسند‘‘ قراردیا جارہاتھا اور اصلاح پسند گروپوں نے ان کی حمایت کا اظہار کیا تھا مگر وہ نمایاں عوامی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پولنگ سے دو روزقبل علی خامنہ ای نے اپنے ہم وطنوں پر زوردیا تھا کہ وہ صدارتی انتخابات میں بھرپورحصہ لیں کیونکہ ان میں ووٹر ٹرن آؤٹ اورایران پر بیرونی دباؤ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ’’اگر لوگ پولنگ کے عمل میں بھرپور طریقے سے شریک نہیں ہوتے تو دشمن کی جانب سے دباؤ میں اضافہ ہوگا۔اگر ہم دباؤ اور پابندیوں میں کمی چاہتے ہیں تو لوگوں کی شرکت میں اضافہ ہونا چاہیے اور نظام کو حاصل عوامی مقبولیت دشمن پر ظاہرہونی چاہیے۔‘‘
ایرانی صدرحسن روحانی نے بھی اپنے ہم وطنوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں اور صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ میں بھرپورانداز میں حصہ لیں۔انھوں نے ایک نشری تقریر میں ایرانی ووٹروں پر زوردیا تھا کہ’’ وہ کسی ایک ادارے یا گروپ کی کمیوں،کوتاہیوں کی وجہ سے ووٹنگ کے عمل سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں۔‘‘ان کا کہنا تھاکہ ہمیں ووٹنگ پر اپنے تحفظات کو مقدم نہیں رکھنا چاہیے۔