ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سولین صدر اپنی آئینی مدت پوری کر رہا ہے۔ ہمارے بہت ہی قابل قدر صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مدت صدارت 9 ستمبر کو پوری ہو رہی ہے۔ آئین کے مطابق صدر کی مدت مکمل ہونے سے ایک ماہ پہلے نئے صدارتی انتخابات کروا کے صدر کا انتخاب ضروری ہے۔ منتخب صدر 9 ستمبرکو اپنے عہدے کا حلف اُٹھائے گا۔ جس کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے 6 اگست کو صدارتی انتخابات کرانے کی منظوری دیدی۔ جس کے بعد ملک کی تین بڑی جماعتوں نے اپنے اپنے صدارتی امیدواروں کا اعلان کر دیا۔
مسلم لیگ (ن)کو سادہ اکثریت حاصل ہے لیکن اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو کامیابی کے لیے دوسری اپوزیشن جماعتوں کی حمائت درکار ہے جس کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے بڑھا دیے اور رابطوں کے نتیجے میں دو جماعتوں نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمائت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
جس کے بعد حکومتی جماعت کو اپنی امیدوار کی پوزیشن کمزور ہوتی نظر آ رہی تھی اگر اپوزیشن جماعتیں اتحاد کر لیتی ہیں تویہ (ن)لیگ کو کافی ٹف ٹائم دے سکتی ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امید وار کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اس خطرے کے پیش نظر حکومت نے صدارتی الیکشن قبل ازوقت کرانے کی کوشش شروع کی تاکہ پیپلزپارٹی کو مزیداتحاد بنانے کا ٹائم نہ ملے اوراسکے لیے حکمران جماعت نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ صدارتی الیکشن شیڈول سے پہلے 30 جولائی کو کروائے جائیں۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ 6 اگست کو 100 کے لگ بھگ ارکان پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان عمرے پر گئے ہوں گے اور اعتکاف میں بیٹھیں گے جس کی وجہ سے وہ اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کر سکتے۔
Supreme Court
وزیراعظم بھی ماہ صیام کے آخری ایام میں عمرے کی ادائیگی پر جائیں گے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہمارا آئین جو اسلامی عبادات کی ادائیگی کی ضمانت دیتا ہے پس اپیل کی جاتی ہے کہ صدارتی انتخابات 30 جولائی کو کروائے جائیں تاکہ سب ارکان اپنے ووٹوں کا استعمال کرکے صدر کا انتخاب کریں۔
سپریم کورٹ نے درخواست پر موقف سن کر انتخابی شیڈول میں تبدیلی کاحکم الیکشن کمیشن کو دے دیا اس فیصلے کے تحت اب انتخابات 30 جولائی کو ہوں گے۔ اس فیصلے پر حکمران جماعت خوش ہے کہ وہ اپنی سازش میں مکمل طور پر کامیاب ہو گئی ہے اور اب انہوں نے حریف پیپلز پارٹی کے امید وار رضا ربانی کو ابھی ٹف ٹائم دے دیا ہے کیونکہ ان کے پاس مزید اتحاد بنانے کا وقت بہت کم ہو گیا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ کہنے پر مجبور کر رہا ہے کہ سپریم کورٹ بھی انصاف نہیں دے رہی بلکہ جس کی لاٹھی اُس کو بھینس دے رہی ہے یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ (ن ) لیگ کی خواہش کا احترام کیا گیا ہے اور پیپلز پارٹی سے زیادتی کی گئی ہے ماضی میں اس طرح کی زیادتی کی مثال نہیں ملتی۔
سپریم کورٹ کو کم از کم دوسرے فریق کا بھی موقف سننا چاہیے تھا پھر بعد میں فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ اس فیصلے کے کہ بعد عوام میں سپریم کورٹ پر ایک منفی تاثر بڑھ گیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حکمران جماعت نے انتخابات کی تاریخ تبدیل کر واکر پیپلز پارٹی کی کامیابی کی راہ میں مشکلات پیدا کر چکی ہے اور اپنی سازش کے تحت کامیابی حاصل کر لے گی۔