صدرکے انتخاب کے لئے ن لیگ کو دوسوستتر ووٹ کے ساتھ سر فہرست ہے۔ پیپلزپارٹی تحریک انصاف اور متحدہ قومی مومنٹ کا اتحاد بھی ن لیگ کے ووٹوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ جمہوریت سے جمہوریت کا سفر بخیروخوبی انجام پذیر ہوا ۔ اب وقت ہے نئے صدرمملکت کے انتخاب کا۔نئے صدر کے انتخاب کے لئے مسلم لیگ ن قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پانچ سو بتیس ارکان کے دوسوستتر صدارتی ووٹ حاصل ہیں۔
قومی اسمبلی میں ایک سو تیراسی، سینیٹ کے چودہ پنجاب اسمبلی کے اکیاون اعشاریہ پانچ، سندھ اسمبلی تین اعشاریہ صفرنو، خیبرپختوا سے آٹھ اعشاریہ تین آٹھ جبکہ بلوچستان اسمبلی سے سترہ ووٹ شامل ہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی حالیہ انتخابات ایک سو انیس صدارتی ووٹ کے ساتھ دوسری بڑی جماعت ہے۔ پیپلزپارٹی کوصدر کے انتخاب کے لئے قومی اسمبلی سے اکتالیس، سینیٹ سے چالیس،پنجاب اسمبلی سے ایک اعشاریہ صفر پانچ، سندھ سے چونتیس اعشاریہ آٹھ دو خیبرپختونخوا سیدواعشاریہ صفر نو، جبکہ بلوچستان سے صدراتی انتخاب کے لئے کوئی ووٹ حاصل نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف باسٹھ صدارتی ووٹوں کے ساتھ تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے۔قومی اسمبلی سے تیس،پنجاب اسمبلی کے چار اعشاریہ پانچ ،سندھ اسمبلی ایک اعشاریہ پانچ چار، خیبرپختونخوا سے چوبیس اعشاریہ پانچ جبکہ سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی سے صدارتی انتخاب کے لئے کوئی ووٹ حاصل نہیں۔متحدہ قومی موومنٹ انچاس صدارتی ووٹ کے ساتھ حالیہ انتخابات میں ملکی کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ قومی اسمبلی کے تئیس سینیٹ کے سات، سندھ اسمبلی کے اٹھارہ اعشاریہ پانچ جبکہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلی سے صدر کے انتکاب کے لئے کوئی ووٹ حاصل نہیں۔