صدارتی ریفرنس پر سماعت: ‘جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا’

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متلعق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ لوگ لیڈرز کی طلسماتی شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں۔

سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہوئی۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات ہو رہی ہے کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے ہوں گے تو چیئرمین سینیٹ کے بھی ایسے ہی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے، اگر چیئرمین سینیٹ کا انتخاب اوپن بیلٹ سے کرانا ہو تو آئینی ترمیم درکار ہو گی، بھارت میں چیئرمین سینیٹ اور نائب صدر کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوتا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ لوگ پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں یا اس کے منشور کو؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ زیادہ لوگ لیڈرز کی طلسماتی شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں، قائداعظم کی شخصیت سے متاثر ہو کر لوگ انہیں ووٹ دیتے تھے لیکن اصولی طور پر پارٹی اور منشور دونوں کو ووٹ ملنا چاہیے۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ طلسمی چیز کیا ہے؟ کیا بہترین شخصیت اور خوش لباسی پر لوگوں نے ووٹ دیا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ووٹ پارٹی کو دیا جاتا ہے نہ کہ انفرادی امیدوار کو، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اندرا گاندھی نے آئین توڑا تو لوگوں نے اسے مسترد کر دیا۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ لوگ انتحابات میں پوچھتے ہیں کتنے وعدے پورے کیے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی منشور شائع کرنا قانونی طور پر ضروری بھی ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ سینیٹ میں ووٹر کو مکمل آزادی نہیں ہوتی جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ بھارتی فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں، بھارتی آئین میں خفیہ ووٹنگ کا آرٹیکل 226 نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارتی آئین میں ہر الیکشن کے لیے خفیہ ہونے یا نہ ہونے کا الگ سے ذکر ہے، آرٹیکل 226 میں تمام انتحابات خفیہ ووٹنگ سے ہونے کا ذکر نہیں ہے، آرٹیکل 226 کے مطابق آئین کے تحت ہونے والے الیکشن خفیہ ہوں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آئین بنانے والوں کو سینیٹ الیکشن کا معلوم نہیں تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اوپن ووٹنگ کی فروخت آج ہے پہلے نہیں تھی، 1973میں تو معلوم بھی نہیں ہو گا کہ لوگ نوٹوں کے بیگ بھر کر لائیں گے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ صورتحال اتنی بھی سادہ نہیں ہے جتنی آپ کہہ رہے ہیں جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید کا کہنا تھا کہ کل تک دلائل مکمل کر لوں گا جس پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔