وقتا ً فوقتاً جو کچھ لوگ شرلی چھوڑتے رہتے تھے کہ صدارتی نظام پاکستان کیلئے بہتر ہے انہیں سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر چپ کروا دیا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام جب بھی آیا نقصان اٹھایا ملک میں ہونے والے تمام ریفرنڈمز کا نتیجہ ایک ہی نکلا کہ میں صدر ہوں اور صدارتی نظام کے دوران ہی ملک ٹوٹا۔ عدالت نے ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کیلئے ریفرنڈم کروانے سے متعلق تمام درخواستیں خارج کردیں۔ عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھے۔ ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے سے متعلق درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف سماعت کی۔ عدالت نے درخواست گزار سے استفسار کہ کوئی انفرادی طور پر آئے تو دیکھنا ہو گا کہ آیا آنے والے فریق کا درخواست دائر کرنے کا قانونی جواز کیسے بنتا ہے۔ ملک میں بڑی سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ اور دیگر ادارے موجود ہیں۔ انکی موجودگی میں کوئی شخص انفرادی طور پر ایسی درخواست ایسے کیسے لا سکتا ہے۔ جس پر درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ میں نے رجسڑار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اہم معاملہ ہے اس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ رجسڑار سپریم کورٹ نہیں کر سکتا صرف عدالت کر سکتی ہے۔ احمد رضا قصوری نے کہا پارلیمنٹ، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کا کردار سب کے سامنے ہے۔
سیاستدان تو ٹی وی شوز میں دست و گریباں ہو جاتے ہیں ان میں بات سننے کا حوصلہ ہی نہیں۔ میرا ماضی میں بھی ملک میں اہم کردار رہا ہے۔ جتنے بھی پارلیمنٹرینز ہیں ان میں سے میں بہت سینئر ہوں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آئین کے آرٹیکل 48 کے شق 6 کے تحت وزیر اعظم جب بھی کسی مسئلہ کو اہم سمجھے تو اس پر مشترکہ اجلاس میں رائے لے سکتا اور اگر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس منظوری دے تو ہاں یا نہ کی طرز پر سوال کے ذریعے ریفرنڈم کرایا جاسکتا ہے۔ ایسے میں کیا کوئی شخص آکر کہہ سکتا ہے کہ وزیر اعظم کو یفرنڈم کیلئے ہدایت دی جائے۔ جس پر وکیل نے کہا میں ایک ادارہ ہوں۔ پاکستان بنانے والوں میں شامل ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کیا آپ نے پارلیمان میں اعتراض کیا؟ کہ پارلیمانی نظام حکومت نہیں ہونا چا ہئے جس پر احمد رضا قصوری نے کہا میں نے آئین پر کبھی دستخط نہیں کئے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا ریفرنڈم کا فیصلہ وزیراعظم کا اختیار ہے۔ عدالت وزیر اعظم کو کیسے ریفرنڈم کروانے کی ہدایت کر سکتی ہے جس پر درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ ملکی مفاد اور حالات کے پیش نظر وزیر اعظم کو ہدایت دی سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کبھی پارلیمنٹ یا سینٹ میں صدارتی نظام کا سوال اٹھایا گیا ہے یا پھر صدارتی نظام کا ایشوکبھی ملک میں اہم ایشو بنا ہے۔ درخواست گزار نے کہا پارلیمنٹ میں تو سکیورٹی معاشی ایشوز پر بھی بحث نہیں ہو سکتی کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اس میں عدالت کیسے مداخلت کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کا کام تنازعات کا حل کرنا ہے۔ ہمیں اپنا کام کر نے دیں۔ ایسے سیاسی مسئلوں سے ہمارا تعلق نہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اگر کوئی سیاسی جماعت عدالت آتی تو ممکن ہے اسکا کردار بن سکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا درخواست گزاروں نے اگر تحریک چلانی ہے تو سیاسی تحریک چلائیں ایسا کوئی طریقہ کار نہیں کہ عدالت ایک سیاسی نظام کو ختم کر کے دوسرا سیاسی نظام لاے نظام کے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے دیں۔ دوسرے درخواست گزار ڈاکٹر صادق علی نے موقف اپنایا کہ عدالت قانون کے تابع نہیں بلکہ اسلام کے تابع ہے اگر کوئی قانون اسلام کے بر خلاف ہو تو عدالت اس پر اپنا فیصلہ دے سکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اس سے پہلے صدارتی نظام کب آیا جس پر درخواست گزار نے کہا ملک میں صدر ایوب خان نے ریفرنڈم کرا کر صدارتی نظام لاگو کیا۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا صدر ایوب خان نہیں فیلڈ مارشل ایوب خان کہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا سپریم کورٹ کس بنیاد پر ریفرنڈم کرانے کا حکم دے؟ ریفرنڈم اور صدارتی نظام کا تجربہ اس قوم کیلئے اچھا نہیں رہا۔ 1984 میں ریفرنڈم ہوا کہ اسلام چاہیے تو میں صدر ہوں۔ 2002 میں ریفرنڈم ہوا کہ میں صدر ہوں۔
درحقیقت عوام نے 1973 کے آئین کو پسند کیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا یہ بھی یاد رکھیں کہ صدارتی نظام میں ہی ملک ٹوٹا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا درخواستوں میں عدالتی نظام کا بھی نقطہ اٹھایا گیا ہے۔ عدالتی سسٹم کا صدارتی یا پارلیمانی نظام سے کیا تعلق؟۔ کیا آپکو برطانیہ اور امریکہ کا عدالتی نظام پسند ہے؟۔ جس پر درخواست گزار وکیل نے کہا برطانیہ اور امریکہ کے عدالتی نظام بہترین ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا برطانیہ میں پارلیمانی نظام ہے اور امریکہ میں صدارتی آپکو بیک وقت دونوں ممالک کے عدالتی نظام پسند ہیں۔ وکیل نے کہا صدارتی نظام ہو تو صدر 51% ووٹ لیکر اکثریت سے منتخب ہوتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا دنیا کا کوئی صدر بھی 51% فیصد ووٹ لے کر نہیں آتا۔ پوری دنیا میں اکثریت حاصل کرنے والا ہی صدر بنتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ آپ اسلامی نظام کا کہہ رہے ہیں کیا ملک میں صدارتی نظام سے متعلق اسلام میں کوئی حکم ہے۔ درخواست گزار نے کہا میں ایک انجئینیر ہوں۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پھر آپ معاملات کو انجینئرنگ تک ہی رکھیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم نے حقیقت میں رہنا ہے۔ میرے ساتھی جج نے بھی کہا جب بھی ملک میں صدارتی نظام آیا ہم نے نقصان اٹھایا۔ ہم ماضی کو دہرانا نہیں چا ہتے۔ درخواست گزار نے کہا ملک میں جمہوریت خلفائے راشدین والی ہونی چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا خلفائے راشدین جیسی قیادت ہر شخص کی خواہش ہے، لیکن ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے اب خلفائے راشدین جیسی قیادت ملنا ممکن نہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں شعر پڑھتے ہوئے کہا
‘ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ‘ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم سب اسی دیدہ ور کی تلاش اور انتظار میں ہیں۔ قائداعظم نے بھی جمہوریت کی بات کی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہمیں لوگوں کے مسائل حل کرنے دیں کس چکر میں پڑے ہیں۔ جس کے بعد عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ درخواست گزاروں کے کیس میں متاثرہ فریق ہونے اور انفرادی طور پر آنے سے متعلق دو سوال اٹھائے گئے۔ عدالت نے سوال کیا کہ ملک میں سیاسی فورمز اور ایک نظام موجود ہے جہاں نظام کی تبدیلی کیلئے آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔ آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ عدالت ایسے ریفرنڈم کرانے کا حکم دے ۔ عدالت ِ عظمیٰ کافیصلہ تو خوش آئندبھی ہوسکتاہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کا نظام پارلیمانی ہویاصدارتی نظام کے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گااصل مسئلہ تو عوام کے مسائل ہیں جن کی طرف کوئی حکمران توجہ نہیں دیتا کیاصدارتی نظام کوئی تعویزحل المشکلات ہے جس کے آنے سے تمام مسائل حل ہوجائیں گے ایسا تو اللہ دین کے چراغ سے بھی ممکن نہیں عام آدمی کو گھورکھ دھندوںمیں الجھانے کی بجائے پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو فروغ دیا جائے جس کا خواب بابائے قوم قائدِاعظم محمدعلی جناح نے دیکھا تھا یہی اس قوم کے دیدہ ورکی خواہش تھی۔