اسلام آباد (جیوڈیسک) آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ تین مئی کو دنیا بھر میں آزادی صحافت کا دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 1993 میں اس دن کو آزادی صحافت کا دن قرار دیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں صحافیوں کے حقوق اور ان کی آزادی رائے کے تحفظ اور ایسے صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے سچ کی تلاش میں اپنی جانیں گنوا دیں۔
سینئیر صحافی انور اقبال نے اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا، اس وقت پاکستان میں بہت عجیب وغریب صورتحال ہے۔ میں نے براہ راست ضیا الحق کے سینسرشپ کا دور بھی دیکھا ہے، جس میں پورا اخبار سینسر کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد بتدریج حالات بہتر ہوئے اور آزادی اظہار رائے کسی حد تک بحال ہوئی۔ لیکن اس وقت جس قسم کی سینسر شپ ہے وہ آمریت کے دور کی سینسر شپ سے بھی بدتر ہے۔ زمینی حقائق جھوٹ بولنے سے بدل نہیں سکتے۔
1971 میں سقوط ڈھاکا کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، یحیی خان کے دور میں جس وقت ہم ہتھیار ڈال چکے تھے اس وقت ہر اخبار میں یہ خبر چلی تھی کہ جنگ ایک ہزار سال تک جاری رہے گی۔ آزادی صحافت پر قدغنیں لگانے سے دو چار دن آپ اپنا موقف دے سکتے ہیں مگر بالآخر سچائی آپ کو ماننا پڑتی ہے۔
انور اقبال نے دور آمریت اوردور حاضرکا موازنہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ آج کل چینل یا ادارے کو سینسرشپ کے نام پرسزا کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت ساری ایسی چیزیں جو چھپنا چاہیے تھیں منظر عام پر نہیں آ پاتیں۔
پاکستانی صحافی اور ڈاکومنٹری فلمساز بینا سرور نے اس دن کی مناسبت سے ڈی ڈبلییو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے دن روز منانے چاہییں کیونکہ معاشرے میں صحافیوں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے، مگر کیونکہ ایسا ممکن نہیں اس لیے ہر سال اس دن کو منانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہاں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اس ایک سال میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔
صحافی معاشرے کو طاقتور بناتے ہیں کیونکہ کہاوت ہے کہ معلومات میں طاقت ہے اور صحافی آپ کو وہ طاقت دیتا ہے۔ بینا سرور کے مطابق، سوشل میڈیا کے اس دور میں غیرجانبدارانہ رپورٹنگ کی ضرورت اور اہمییت اور بھی بڑھ گئی ہے اور اسی کے ساتھ صحافیوں کی ذمہ داری بھی۔
نگہت داد ڈیجیٹل رائٹس فانڈیشن پاکستان کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ہیں۔ وہ پاکستان اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ تک رسائی کی مہم کے اولین کارکنوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ وہ انٹرنیٹ کی آزادی، خواتین اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل سکیورٹی کے علاوہ خواتین کی معاشی خود مختاری جیسے معاملات کے لیے بھی سرگرم ہیں۔
یوم آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان میں مقیم صحافی شاہ زیب جیلانی نے ڈی ڈبلییو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں ریاست کی طرف سے صحافیوں کی زبان بندی کے لیے دبا بڑھتا گیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ ریاست اپنی غلط پالیسوں پر نظر ثانی کرنے کی بجائے اپنی ناکامیوں کا غصہ صحافیوں اور صحافتی اداروں پر نکالتی نظر آتی ہے۔
میڈیا کو کنڑول کرنے کے لیے ہمارے آج کل کے حکمران سعودی عرب چین اور روس سے متاثر نظر آتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت کا مزاج جمہوری ہے اور میڈیا پر شکنجہ کسنے سے ملک اندر سے کمزور ہوتا ہے۔ میرے خیال میں صحافیوں کی زبان بندی اور انہیں دھمکانے کی حالیہ روش ایک لمبی جدوجہد کا ایک کٹھن دور ہے لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ایف آئی اے نے شاہ زیب جیلانی کے خلاف سائبر ٹیررازم اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے الزامات پر مقدمہ درج کیا تھا۔ تاثر ہے کہ یہ مقدمہ ان کے اور ان جیسے دیگر صحافیوں کی آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت پر دبا ڈالنے کے لیے کیا گیا ہے۔