دکھاوے کی دینداری

Hazrat Umar R.A

Hazrat Umar R.A

تحریر: ڈاکٹر محمد خالد فواد الازھری
حضرت عمر فاروق نے ایک آدمی کے بارے میں استفسار کیا تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور بتایا کہ میں جانتا ہوں ،انہوں نے سوال کیا کہ وہ تمہارا پڑوسی ہے اور پڑوسی اپنے پڑوس میں رہنے والے کے اخلاق سے واقف ہوتاہے، تو جواب دیا گیا نہیں وہ میرا پڑوسی نہیں ہے ،آپ نے فرمایا کہ شاید تم نے ا سکے ساتھ سفر کیا ہوگا ،انسان دوران سفر مزاج کی جانکاری حاصل کرتاہے، تو اس آدمی نے جواب دیا نہیں۔

آپ نے فرمایا پھر شاید تم نے اس کے ساتھ کوئی لین دین کا معاملہ کیا ہوگا تب جانتے ہو ،معاملہ کرنے سے انسان کی امانت و دیانت داری کا پتہ چل جاتاہے،تو اس آدمی نے پھر وہی جواب دیا کہ نہیں میں نے معاملہ بھی نہیں کیا اس کے ساتھ تو اس کے بعد حضرت عمر نے فرمایا کہ شاید تم نے اس کو مسجد میں عجز و انکساری کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دکھاہوگا ،تو اس آدمی نے جواب دیا کہ جی بالکل ،آپ نے فرمایا پھر تم بیٹھ جائو تم نہیں جانتے اس کو۔

حضرت عمر جانتے تھے کہ بعض افراد مسجدوں میں خشوع خضوع اور احترام کے ساتھ داخل ہوتے ہیں مگر مسجد سے بھوکے شکاری جانور کی طرح بازار میں داخل ہوتے ہیں اور انسانوں کے حقوق کو غصب کرتے ہیں ،بہت سی طویل و لمبی داڑھیوں سے مزین چہرے والے اس کے پردے میں اپنے باطنی و دلی عیوب کو چھپائے ہوئے ہوتے ہیںجو کہ کسی بھی کامل مسلمان کی علامت نہیں ہوسکتے،بہت سے لوگ اپنی ظاہری خوبصورتی کے پس پردہ چور کا چہرہ چھپایا ہواہوتاہے اور بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں جن میں اللہ کا ڈر و خوف اور استحضار القب موجود ہوتاہے،اسی طرح ہر سیاہ چادر میں ملبوس خاتون کو نیک سیرت و پاکیزہ فطرت قرار نہیں دیا جاسکتاممکن ہے کہ اس کے سہارے وہ انسانیت کو مضرتیں پہنچانے میں مشغول ہو۔

Hypocrite

Hypocrite

انسانی معاشرے میں ایسے افراد کی قلت نہیں جو نماز کی پابندی کرتے ہیں مگر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور کاروبار و معاملہ میں غلط بیانی و جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں جیسے بعض افراد حج کی ادائیگی کو اپنے عیوب پر پردہ پوشی سے تعبیر تصور کرتے ہیں، جو لاگ ظاہری شکل و صورت پر اکتفا کرتے ہیں وہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالی کی کھوکھلی عبادت کرتے ہیں یعنی وہ عبادت ان کو کچھ فائدہ نہیں دے گی جس کے نتیجہ میں انسانیت میں نیک خصلت پیدا نہ ہو اور دیانت داری و صداقت اور انسانیت دوستی کو اپنا شعار نہ بنالے۔

مثال کے طور پر دیکھا جائے کہ انڈونیشیا میں اسلام کیسے غالب آیاتو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ وہاں پر اسلام کی دعوت بذریعہ تاجروں کے پہنچی اور انہوں نے مسلمان تاجروں کے حسن سلوک ،حسن معاملہ ،دیانت دایری اور اچھے اخلاق کو دیکھ کر اسلام کو ہمیشہ کے لئے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔مسلم تجار نے کوئی چیز غلط بیانی سے نہ بیچی تھی اور نہ ہی کسی کا مال ناحق کھایا تھایہی وجہ ہے کہ انڈونیشیا کے لوگوں نے ان سے محبت کی اور اسلام کے آغوش میں پناہ حاصل کی ۔جھوٹ اور غلط بیانی کو شعار بنانے والا مومن کھلے و اعلانیہ کفر سے زیادہ مضر و نقصان دہ ہے اگرچہ اللہ کے ہاں دونوں ہی شر ہیں۔

نبی مکرمۖ کا فرمان ہے کہ ”دین معاملہ ”کا نام ہے یعنی حقیقی دینداری یہ ہے کہ انسان لوگوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرے، اگر کوئی دین دار تاجر اور لادین تاجر ایک جیسا معاملہ کرتے ہیں تو اس دین داری کے کیا معنی ہیں ؟؟اگر دین دار خاوند اور غیر دین دار خاوند بیوی کے ساتھ ایک ہی طرح کا براسلوک کرتے ہیں تو اس ظاہری شکل و صورت کی دین داری کا کیا مقصد؟؟اگر والدین کی نافرمانی میں یا ان کے ساتھ بدتمیزی میں دینی صحبت رکھنے ولا اور سیکولر ذہن کا انسان ایک ہی طرح پیش آتے ہیں تو کیا فائدہ ہے اس دکھاوے کی دینداری کا؟؟

Trouble

Trouble

مصیبتوں میں سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ انسان بظاہر نماز روزہ رکھے اور اپنے آپ کو کھانا کھانے سے روکے رکھے مگر اس کے دل کو اس روزے و نماز کی ادائیگی کا کچھ بھی اثر نہ ہو۔ہمارے لئے باعث فخر امر ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہماری وضع قطع اسلامی ہوتی ہے مگر افسوس اس بات پر ہے کہ ہم نے مقصود اصلی یعنی مضمون و روح اسلامی تعلیمات سے ایسے دور ہیں جیسے کوئی اچنھبے کی چیز ہو۔بکریا ں چرانے والوں کی ظاہری شکل و صورت کو تبدیل کرنے پر اسلام نے زور نہیں دیا مگر ان کے جذبات و احساسات کو بدلنے پر زور دیا کہ وہ رب کریم کے شکر گزار اور اس سے ڈرنے والے انسان بن جائیں۔

یوں تو ابوجہل کی بھی ظاہری وضع قطع سے عزت والا معلوم ہوتاتھا اور وہ بگڑی بھی پہنتاتھا جیسے کہ ابوبکر صدیق پہنتے تھے، امیہ بن خلف کی داڑھی حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرح گھنی تھی ،عتبہ کی تلوار خالد بن ولید کی تلوار جیسے مشہور تھی ،لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ظاہری وضع داری میں مشابہت موجود ہوسکتی ہے مگر افکار و اہداف کا فرق انسان کو ایک دوسرے سے متمیز کردیتاہے۔

جیسے نبی کریمۖ کا ارشاد ہے کہ ”اللہ رب العزت انسانوں کی شکل و صورت کو نہیں دیکھتے و پرکھتے بلکہ رب کریم انسان کے دلوں کا جائزہ لیتے ہیں”اسی طرح قرآن میں بھی وارد ہے کہ ”روز محشر انسان کو مال و اولاد کچھ نفع و فائدہ نہ دیں گے مگر جو تندرست و توانا اور صحیح سالم دل لے کر اللہ کے حضور حاضر ہو”وہی دنیا و آخرت کی کامیابی سے سرفراز ہوگا۔

Dr. Mohammad Khalid Fouad Azhari

Dr. Mohammad Khalid Fouad Azhari

تحریر: ڈاکٹر محمد خالد فواد الازھری
سربراہ وفد اساتذة الازھر