اسلام کو خطرہ ہے ۔۔۔۔مگر کس سے؟؟

Prayer

Prayer

تحریر: ملک محمد سلمان
گزشتہ شب ایک دوست جن سے کم و بیش روز کا واسطہ پڑتا ہے جسے نماز کیلئے دعوت دینا اور موصوف کے نت نئے بہانے اور تم جائو میرے لیے بھی دعا کرنا کا جملہ روزمرہ کا معمول ہے۔گذشتہ شب بھی میں نے اسے مغرب کی نماز کی دعوت دی تو حسب سابق وہی جواب ملا، ابھی نماز پڑھ کہ گھر آیا ہی تھاکہ اسی دوست کی کال آئی کہ فلاں جگہ محفل ہے آئو چلیں،میں نے معذرت کی کہ تھوڑا مصروف ہوں پھر کبھی سہی،بس پھر کیا تھاموصوفنے آئو دیکھا نہ تائو اور فوراً سے پہلے فتویٰ جاری کر دیا کہ کافر ہو گئے ہو کہ تمھیں دینی اجتماع سے اپنا کام زیادہ ضروری ہے،کتنے بد قسمت ہو کہ دین کی محفل میں نہیں جانا چاہتے۔کال بند ہوتے ہی میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ کافر قرار دینا کتنا آسان ہے ،کیا ایمان کا معیار صرف محفل اور اجتماعات ہی ہیں،نہ نماز نہ روزہ صرف محفل میں آئو اور مسلمان کا سرٹیفیکیٹ لے لو ۔

اس بیچارے کا کوئی قصور نہیں ہے ،یہاںبے عمل اور زورآوراسلام کے ٹھیکداروںکی کمی نہیں ہے، نہ نماز نہ اخلاق نہ کردار بس سالانہ اور ماہانہ محافل میں شرکت کرواور قضائے عمری ادا۔اسلام کے نام پر ہونے والی محافل اور اجتماعات سے کون نہیں واقف کہ ان مسلکی اجتماعات میں مخصوص تقریر کا لب لباب اور خلاصہ یہی ہوتا ہے کہ ہم حق پر ہیں اور باقی سب کفر اور گمراہی کے رستے پر ہیں ،حق گوئی کا یہ کونسا طریقہ ہے؟ ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے کیلئے منعقد ہونے والی محافل قطعی اسلام کی خدمت اور اشاعت نہیں کر رہی،بلکہ رحمٰن کے نام پر شیطان کے پیغام”انتشار” کی تبلیغ کامئوثر زریعہ ثابت ہورہی ہیں۔جب ہم نے قرآن کو کھولنا ہی نہیں ،نماز اداہی نہیں کرنی،حدیث کا مطالعہ کرنا ہی نہیں،اللہ کے احکامات اور رسولۖ کی تعلیمات حاصل ہی نہیں کرنی تو پھر مولویوں کے بتائے ہوئے اصول وضوابط ہی مسلمان یا کفر کا معیار ہوں گے،مسلکی منافرت کا سلسلہ انتہا پسندی کے عروج پر پہنچ چکا ہے،ہر کسی کا اپنا مسلک اور عقیدے کی بناپر جس کے جو دل میں آتا ہے اُسے دین بنا کر پیش کر رہا ہے اور یوں مذہب کے نام پر دکانداری زوروں پر ہے۔

MAHFIL-E-NAAT

MAHFIL-E-NAAT

چند روز قبل حجرہ شاہ مقیم میں انتہائی افسوسناک واقع ہوا ،جہاں محفل نعت کی تقریب میں قاری بشیر نے حاضرین سے رسالت کے نعرے لگواتے ہوئے اچانک یہ پوچھ لیا کہ کہ کون کون نبی ۖ کو نہیں مانتا ہاتھ کھڑا کرے،ایک پندرہ سالہ معصوم بچے انور جس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ مولوی نے یہ پوچھا ہے کہ کون کون نبیۖ کو مانتا ہے ہاتھ بلند کر دیا ۔مولوی صاحب نے جھٹ سے بچے پر گستاخ رسول کا فتویٰ جڑ دیا ،بچے نے وضاحت بھی کہ غلط فہمی میںہاتھ کھڑا ہوا،لیکن مولوی نے ایک نہ سنی اور اسے گستاخ رسولۖ اورناقابل معافی جرم کہتے ہوئے دربارِ رسالت ۖکا گنہگار قرار دے دیا۔معصوم بچہ مولوی کی سخت وعید کو سُن کر اس قدر حواس باختہ ہوا کہ گھر چاکر اپنا ہاتھ کاٹ کر مولوی کو پیش کر دیا کہ گستاخ ہاتھ کاٹ دیا ،مولوی نے اللہ کے قہر سے ڈرنے اور شرمسار ہونے کی بجائے مرحبا مرحبا سچا عاشقِ رسول کے نعرے لگوادئیے۔معصوم انور ہمیشہ کیلئے معذور ہو گیا مگر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس جاہل مولوی سے پوچھا جائے کہ انتہائی بے عمل اور گیا گزرامسلمان بھی یہ سوچ نہیں سکتا کہ معاذاللہ وہ رسولۖ کو نہیں مانتا۔انتہائی بے تکا اور جاہلانہ سوال کرنے والے مولوی کی علمی استطاعت کا اندازہ آپ خود کر لیں،ایسے کم علم اور جاہل دین کے نام پر کھلواڑ کر رہے ہیں،

انتقامی اور ظالمانہ ذہنیت کے مالک مولوی حضرات کی برین واشنگ کا نتیجہ ہے کہ کسی بے گناہ کو حرمت قرآن و رسول کا مجرم ٹھہرا کر بلا تحقیق قتل کر دیا جاتا ہے اور قاتل کو عاشق رسول ۖ اور ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے،اگر مان بھی لیا جائے کہ واقعی گستاخی ِ رسول یا بیحرمتی قرآن کا مجرم بھی ہو تو پھر بھی کسی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود سے کسی کا ناحق قتل کردے،اس کا اختیارصرف اور صرف ریاست کے پاس ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سزا کا تعین کرے۔گستاخی رسول اور بیحرمتی قرآن کے نام پر لوگوں کو زندہ جلا کر اسلام کی کونسی خدمت کی جاہی ہے، بیحرمتی کے نام پر ہونے والے مقدمات کی تفتیش کی بعد اکثر کیسز میں یہ نتیجہ سامنے آیاہے کہ ذاتی عناد پر بے بنیاد الزام لگا کر پھنسانے کی کوشش کی گئی،شرمناک پہلو تو یہ ہے مسلکی بنیاد پر بھی مسلمان ایک دوسرے کو گستاخ رسولۖ ثابت کرنے کیلئے5-C 29کے قانون کا سہارا لیتے ہیں۔اپنے طریق کے علاوہ سب کو خلاف ِ شرعیت اور کفرقرار دینے والے متعصب مولویوں کے پھیلائے ہوئے علم کی بدولت آج اسلام سخت تنقید کے زد میں ہے، دہشت گردی کے ہرواقعے کو اسلام سے جوڑا جاتاہے۔لمحہ فقریہ ہے کہ اس حالات کی ذمہ داری کو قبول کرنے اور اپنی اصلاح کی بجائے مولوی حضرات اسلام خطرے میں ہے کہ راگ الاپ رہے ہیں۔لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اسلام کو اصل خطرہ کسی اور سے نہیں بلکہ انہی منافرت پسند مولویوں سے ہے،جو اپنی جاہلیت سے لوگوں کو تشدد اور عدم برداشت کا درس دے کر نہ صرف افراتفری پھیلارہے ہیںبلکہ اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیںاور دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں،اسلام دشمن عناصر جواول روز سے مسلکی منافرت کو ہوا دینے اور مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں سرگرم ہے

The Messenger of Allah

The Messenger of Allah

اور اس مذموم مقصد کیلئے خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔افسوس کا مقام ہے کہ ہر مسلک کے ماننے والوں میں سے کچھ افراد اپنی کم علمی و سادگی میں بھی دام فریب میں آجاتے ہیںاور دشمن کا کام”تفرقہ بازی” بخوبی سرانجام دیتے ہیں۔کبھی آپ نے غور کیا کہ ہم اللہ کے ساتھ کیسی تجارت کرتے ہیں؟گھرمیں جو بچہ سب سے نالائق ہوتا ہے ،سکول نہیں جاتا،اگر سکول جائے بھی تو کوئی امتحان پاس نہ کرے تو آپ اس کی بار بارکی ناکامی سے تنگ آکر اس کو مدرسے کی راہ پر لگا دیتے ہیں،پھر وہی بچہ مدرسے کی مخصوص ماحول میں تربیت پا کر ایک دن پیش امام بن جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ۖ کی تعلیمات کے مطابق سب سے زیادہ اہل ِ علم اور صاحب اقتدار شخص ہی امامت کی اہلیت رکھتاہے،میں بہت وثوق اور دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری مساجد کے امام مسجد سے قرآن کی فہم وفراست کی امید رکھنا تو دور کی بات آپ صرف نماز کا ترجمہ ہی پوچھ کر دیکھ لیں ،نصف سے زائد کا جواب اوں آں ہی ہوگا اور رہی صاحب ِ اقتدار کی بات تو اسکا احوال آپ روزانہ ہی دیکھتے ہیں کہ مسجد کی بااختیار انتظامیہ امام سے مسجد کے لوٹوں کے غائب ہونے اور صفائی نہ ہونے کے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ایسے میں ہم ان سے اسلام کی صحیح تعلیم اور تبلیغ و اشاعت کی امید کیونکر رکھ سکتے ہیں۔اسلام ایک مکمل نظام حیات اور آسان دین ہے لیکن اسلام کے ٹھیکداروں کی عنایات کی بدولت ہر روز نت نئی رسومات کو اسلام کا نام دیکر مشکل سے مشکل ترکیا جارہا ہے۔

اگر ہم باقاعدگی سے نماز ادا کریں اور قرآن کو باترجمہ پڑھنا اپنی عادت بنالیں تو یقین کریں آپکو راہنمائی کا بہترین چشمہ ملے گا ،قرآن کا آفاقی پیغام پڑھ کر تو دیکھیں اس میں پوری انسانیت کیلئے ہدایت اور سلامتی کا پیغام ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم علاقائی رسومات کی بجائے نبوی تعلیمات کو اپنائیںاور اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی کو اللہ اور اسکے رسول ۖ کے بتائے ہوئے اصولوں پر گزرانے کیلئے مسلک اور عقائد کی تفریق کی بغیرایک اللہ،ایک رسولۖ اور ایک قرآن کو ماننے اور اتحادِ امت کی تعلیمات دینے والے نیک اور باعمل علماء کی صحبت اختیار کریں اور نفرت کی بجائے محبت بانٹنا سیکھیں،انتقام کی بجائے درگزر کا نبویۖ رستہ اختیار کریں،کامیابی اور عزت کیلئے پیارے نبیۖ کا بتایا ہوامحبت ،رواداری اور اخوت ہی واحد رستہ ہے جس سے دنیا کا امن اور مسلمانوں کا وقار بحال ہوگا ،انسانی زندگی کی تعمیر ہی سے رضائے الٰہی کا حصول ممکن ہے۔

Malik Salman

Malik Salman

تحریر: ملک محمد سلمان