تحریر: محمد آصف ا قبال، نئی دہلی آج سے چند دہائیوں قبل جب عام طور پر لوگوں کے گھروں میں ٹیلی وژن نہیں ہوتا تھا تو عموماً لوگوں کی دلچسپی سال میں لگنے والے میلے ٹھیلوں، سرکس کے کھیلوں اور بندر و بھالو کے کرتب میں ہوا کرتی تھی۔لیکن یہ کرتب سرکس اور میلے بھی روز نہیںلگتے تھے بلکہ ماہ دو ماہ،چھ ماہ یا سال ہی میں لگتے اورجب بھی لگتے تب ہی محلہ کے تمام بچے ،بوڑھے اورخواتین انہیں سے دلجوئی کرتے اور خوش ہوتے۔بڑے شہروں کو چھوڑ کر سادہ اور ٹھہری ہوئی زندگی عام بات تھی۔نہ گاڑیوں کے تیز ہورن کی آوازیں، نہ روشنیوں کے مینارے اور نہ ہی تیز رفتار زندگی کے شب و روز۔عموماً لوگ دن کے پہلے پہر میں روز مرہ کی مصروفیات اور کاروبار زندگی سے فارغ ہو جاتے۔دوپہر میں سوتے ،آرام کرتے اور شام ہوتے ہی زندگی بھی ڈھلنے لگتی۔چہار جانب سناٹا ،خاموشی اور ویرانی چھا جاتی ۔اور اگر کہیں مدھم یا ڈگمتاتی روشنی کے دیئے جلتے نظر بھی آتے تو اس کے معنی بس یہی ہوتے کہ وہاں چند لوگ جمع ہیںجو دن کی اہم سرگرمیوںپرتبادلہ خیالات میں مصروف ہیں۔اوریہ مصروفیات بھی کیا ؟بس وہی پرانے اور روزانہ کے لگے بندھے کام ۔تصور کیجئے اُس دنیا کا جس میں ہمارے دادا ،دادی یا ان کے ماں باپ رہتے تھے اور موازنہ کیجئے آج کی زندگی سے جہاں نہ سکون ہے،نہ اطمینان اور نہ ہی ٹھہرائو۔ہر شخص گردش ایام اور وقت کی ستم گیری سے پریشان ہے اور بس یہی کہتا نظر آتا ہے: مستیِ حال کبھی تھی کہ نہ تھی، بھول گئے۔۔۔یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی، بھول گئے۔
ایک سرسری نظر ڈالتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ آج کا انسان بے انتہا مصروف ہے۔دن بھی مصروف اور راتیں بھی مصروف۔دن کی مصروفیات یا اہم واقعات پر آج ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیالات نہیں کرتا بلکہ ٹیلی وژن چینلوں کی چینخ پکار اور پرنٹ اور سوشل میڈیا کی ہیڈلائنس میں ہی اس کی زندگی گزرجاتی ہے۔یہ مصروفیت نہ صرف اس کی زندگی کے شب و روزکے اعمال کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس کی فکر،اس کا نظریہ،اس کے خیالات،اس کے احساسات اور اس کے جذبات بھی اِسی تیز رفتاری سے حد درجہ متاثر ہیں۔اس تیز رفتاری کے جہاں کئی فائدے ہیں وہیں اس کے بے شمار نقصانات بھی ہیں۔سب سے اہم اور بنیادی نقصان زندگی میں ٹھہرائو کا نہ پایا جانا ہے۔ٹھہرائو یعنی سکون و اطمینان۔نتیجہ میں افکار و نظریات اور خیالات وجذبات میںٹھہرائو نہیں ہے یعنی افکار و نظریات اور خیالات و جذبات جنہیں اختیار کیا گیا ہے اور جن میں تغیر برپا ہے ،اس سے نہ اطمینان اور نہ ہی سکون حاصل ہوپارہا ہے ۔آپ کہ سکتے ہیں کہ افکار و نظریات اور خیالات و احساسات میں ہمہ وقت تبدیلی ایک مثبت عمل ہے۔کیونکہ انسان فطرتاً انجماد پسند نہیں ہے اور نہ ہی جمود کو زمانہ پسند کرتا ہے۔اس لحاظ سے تغیر و تبدل انسان کا پسندیدہ وتیرہ ہے اور اسی کو پسندیدہ عمل بھی قرار دیا جاتا ہے۔لیکن اس کے معنی غالباً یہ ہرگز نہیں ہونے چاہیے کہ انسان عقائد اور افکار ونظریات میں بھی وقتاً فوقتاً تبدیلی لاتا رہے۔
Change
اس مرحلہ میں اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے ،یعنی انسان کو اپنے عقائد اور افکار ونظریات میں جلد جلد تبدیلی نہیں لانی چاہیے،اس میں ٹھہرائو ہونا چاہیے،یقین کامل اختیار کرتے ہوئے اور اس پر قائم رہتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کرنا چاہیے،تو یہاں مزید سوالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔اور جو سب سے پہلا سوال پیدا ہوگا وہ یہ کہ عقائد و نظریات میں تبدیلی کیونکر ممکن نہیںہے؟اور کیا تبدیلی کے بنا عقیدہ کے درستگی کا جواز ثابت کیا جاسکتا ہے؟یعنی وہ افراد و گروہ جو دوسروں کے عقائد کو درست کرنے کی بات کہتے ہیںیا جو اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے سوا دوسروں کے عقائد و نظریات درست نہیں،وہ یہ کیسے ثابت کریں گے کہ درستگی کے عمل کے دوران وہ دوسروں کے عقائد و نظریات کو تبدیل کرنے میں سرگرم نہیںہیں؟۔
اس موقع پر بس یہی کہاجاسکتا ہے کہ اگر وہ اپنے افکار و نظریات،خیالات،احساسات اور عقائد کو نہیں بلکہ اُس خدائے واحد کے فراہم کردہ عقائد کو دوسروں تک پہنچانے میں مصروف ہیں ، جو خدا اُن کا بھی ہے جو پہنچا رہے ہیں اور ان کا بھی جنہیں پہنچایا جا رہا ہے، تو پھر یہ تبدل و تغیر،منفی نہیں مثبت ہے، نا پسندیدہ نہیں بلکہ پسندیدہ ہے۔اس کے باوجود تبدل و تغیر میں دونوں جانب سے مصروف عمل رہنے والوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ واقعی یہ ہدایات،پیغامات اور عقائد ان کے خود کے نہیں ہیں بلکہ واقعی یہ مالک برحق کے ہیں،جس نے نہ صرف اُنہیں بلکہ اس پورے عالم کو پیدا کیا ہے اور اس کے لیے ایک طے شدہ نظام بھی مقرر فرمایا ہے۔اب جو شخص یا گروۂ انسانی یہ ثابت کردے ،اُس کی بات تسلیم کی جانی چاہیے،اور ایسے شخص سے حددرجہ محبت کی جانی چاہیے نہ کہ نفرت۔کیونکہ یہ شخص جو اِس سرگرمی میں مصروف ہے وہ درحقیقت انسانوں سے بے انتہا ہمدردی رکھتا،نتیجہ میں وہ ایک جانب خود مالک برحق کی ہدایات پر عمل پیرا ہے تو وہیں دوسروں کو بھی اُس کی جانب بلانے میں مصروف ہے۔
Customs and traditions
لیکن اس بات سے بھی ہم اور آپ با خوبی واقف ہیں کہ انسان جن رسوم و رواج پر طویل مدت سے عمل پیرا ہوتا ہے ان کے خلاف وہ کوئی بھی بات پسند نہیں کرتا۔اس کی ایک وجہ اس کی ان رسوم و رواج سے بے انتہا لگائو ہے تو وہیں اپنے خاندان،قبیلہ،گروہ کے تشخص کو برقرار رکھنے کی خواہش۔ساتھ ہی اگر وہ گروہ خاندان یا قبیلہ برسر اقتدار ہو یا اس سے تعلق رکھنے والے افراد، تو پھر ایسے حالات میں اس شخص یاان اشخاص کے لیے کسی اور عقیدہ اور نظریہ پر غور و فکر کرنا مشکل ترین ہوجاتا ہے۔اس کے باوجود یہ امید باقی رہنی چاہیے کہ غور و فکر کے نتیجہ میں کبھی بھی اور کسی بھی وقت نہ صرف خیالات اور جذبات میں تبدیلی ممکن ہے بلکہ افکار و نظریات اور عقائد بھی تبدیل ہوسکتے ہیں۔کیونکہ انسان کا معاملہ یہی ہے کہ وہ ہمہ وقت متغیر حالت میں رہتا ہے اور اسی تغیر پذیری کے نتیجہ میں انسان یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ،مرے کار زار حیات میں رہے عمر بھر یہ مقابلے۔۔۔کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے کبھی دھوپ دب گئی سائے سے۔لیکن وہ لوگ جو محبت و ہمدردی کے ساتھ عقائد و نظریات کی گفتگو کرتے ہیں،اس میں غور و فکر کی محفلیں سجاتے ہیں،اس پر تبادلہ خیالات کرتے ہیں،اپنی کہنے کے ساتھ دوسروں کی بھی ٹھنڈے دل سے سنتے ہیں،وہ کبھی نہ کبھی کامیاب ہوتے ہیں،کیونکہ ان کی یہ ساری سرگرمی اور سعی و جہد کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اس اعلیٰ مقصد اور کامیابی کے لیے ہوتی ہے جس کا وعدہ ان کے رب نے ان سے کیا ہے۔
لہذا ہر طرح کے خوف سے اوپر اٹھ کر رب اعلیٰ کی صفات پر یقین کامل رکھتے ہوئے انسانوں کی بھلائی ،کامیابی اورکامرانی کے لیے سرگرم عمل رہنا پسندیدہے۔شرط یہی ہے کہ جس عقیدہ،نظریہ اورفکر کی وہ تبلیغ میں وہ مصروف ہوں ،عملسے بھی اس کا اظہار ان کے شب و روز کے اعمال میں لازماًہونا چاہیے ۔تاکہ جن لوگوں تک پیغام ربانی پہنچانے کا کام کیا جا رہا ہے کم از کم وہ لوگ ،اُس فرد واحد یا ان افراد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے،قول و عمل کی کسوٹی پر پرکھنے میں کامیاب رہیں۔برخلاف اس کے فکر و نظریہ اور عقیدہ کی تبلیغ کرنے والے اپنا وقت ،صلاحیت اور وسائل ،سب کچھ صر ف کرنے کے باوجود ،ہر دو جہاں میں ناکام ٹھہریں گے۔
آئیے ایک بار پھر اُس تیز رفتار زندگی کا تذکرہ کرتے ہیںجہاں سے گفتگو کا آغاز ہوا تھا۔یعنی جس زمانے میں ہم اور آپ رہتے ہیں وہ حد درجہ تیز رفتار ہے،یہاں ٹھہرائو نہیں ہے،سکون و اطمینان کسی بھی شخص کو حاصل نہیں ہے۔نتیجہ میں شعور و لاشعور اور تحت الشعورپے بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔باالفاظ دیگر سوچنے سمجھنے،غور و فکر کرنے ،رائے قائم کرنے اور مقابلہ و موازنہ کرنے،مطالعہ کرنے اور تقابل کرنے کے مواقع فراہم نہیں ہیں۔نتیجہ میں جو کچھ بھی شعور و لاشعور اور تحت الشعور پر اثر انداز ہوتا ہے وہ بس ایسے ہی ہے جیسے ایک بلٹ ٹرین پٹری پر تیز رفتاری جا رہی ہو اور اس کے اِدھر اور اُدھرکھڑے کھڑے دو شخص چینخ چینخ کر باتیں کریں،اس کے باوجودکوئی بھی دوسرے کی آواز نہ سن پائے ،پھر وہ جو نتیجہ اخذ کریں وہ اس کے خلاف ہو جو کہا جا رہا تھا۔لیکن جب زندگی میں ٹھہرائو آتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے رات کے سناٹے میں حددرجہ مدھم ،گھڑی کی سوئیں کی آواز بھی صاف سنائی دیتی ہے۔موجودہ زمانہ کی بات کی جائے تو اس میں سوشل میڈیا ، فیس بک،ٹوئیٹر اور الیکٹرانک میڈیا کے چینختے چلاتے نیوز چینلس یا انٹرٹینمنٹ کے نام پر وقت کا ضیا کرتے مختلف پروگرامس، زندگی کے شب و روز سے اگر کم کردیئے جائیں اور صرف ضرورتاً ہی استعمال کیے جائیں تو ایک بار پھرسابقہ زمانہ اور اس کی برکات اورموجودہ زمانہ اور اس کی سہولیات ،دونوں کا بیک وقتفائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم ،اپنے شب روز کے اعمال میں تبدیلی لائیںاور ان اعلیٰ مقاصد کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں جو ہمیں ہر دو جہاں میں کامیابی عطا کرنے والیہیں!۔
M Asif Iqbal
تحریر: محمد آصف ا قبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com