تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری 2017کے پورے سال میں تیل کی قیمتوں میں بڑھوتری شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی رہی ہے جس سے عام اشیاء بھی مہنگی ترین قیمتوں پر ملتی رہی ہیں اب تو یکم جنوری 2018 کی صبح ملک بھر کے عوام پر قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑے گی اس کا سوچتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے کہ صنعتکار حکمرانوں کی حرکتوں نے ہمیں موت کے منہ میں دھکیل ڈالا ہے۔
غریب عوام جو کہ پہلے ہی74فیصد سے زائد غربت کی لکیر سے نیچے گزر بسر کرنے پر مجبور محض ہیںوہ جب نئے سال کے تحفہ”مہنگائی کے جن “کو دیکھ کر سر پیٹ کر رہ جائیں گے جب اوگرا وزارت پٹرولیم و دیگر حکومتی ٹائوٹ ادارے اپنی من مرضیوں کی تیل کی قیمتیں مقرر کرکے اربوں روپے منافع اپنی جیبوں میں ڈال چکے ہوں گے۔آپ جتنا بھی احتجاج کرتے رہیں ،چیخیں چلائیں کبھی آج تک ظالم حکمرانوں کے کانوں پر نہ جوں رینگی ہے اور نہ ہی اب رینگے گی کہ ان کا دھیان اِدھر کیسے جا سکتا ہے؟
جب انہیں سرکاری خزانوں سے پٹرول بجلی فون نوکر چاکر جہازوں کی ٹکٹیں اور ائیر کنڈیشنڈ اعلیٰ رہائشیں ملیں گی اور ایوان صدر ،وزیر اعظم ہائوس اور دیگر وزراء کا خرچہ ہی اربوں روپے سالانہ ہوگا تو انہیں قطعاً معلوم تک نہ ہوگا کہ پٹرول کی قیمت بڑھی ہے کہ سرکاری گاڑیوں میں تو پٹرول پرچی سسٹم سے ڈالا جاتا ہے جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔دوسری طرف اسلامی تاریخ کے روشن ستارے خلفائے راشدین تو مساجد میں بیٹھ کر فیصلے کرتے تھے اور اس طرح آدھی دنیا سے زائد پر ان کی حکمرانی قائم تھی اور دیگر غیر مسلم اقوام بھی ان کے کردار و اخلاق کی بلندیوں کو دیکھ کر جوق در جوق مسلمان ہورہی تھیں ادھر ہم ہیں کہ لاکھوں قربانیوں وشہادتوں سے حاصل کیے گئے ملک کا آدھا حصہ 1971میں اقتدار کی کشمکش میں گنوا کر اب بقیہ حصہ کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مذہبی ہم آہنگی قطعاً ناپید ہو چکی ہے اور فرقہ واریت کا شیطان ننگا ناچ رہا ہے اور ہماری کرتوتوں پر ہنستا رہتا ہے کہ بڑے آئے تھے اسلام کے چیمپئن!! میں انہیں فرقوں گروہوں مسلکوں اور علاقائی و لسانی بتوں میں بانٹ کر اور ایکدوسرے پر کفر کے فتوے لگوا کر ایسا لڑوائوں گا کہ پورا عالم اسلام ہی خون میں نہلایا ہوا نظر آئے گا۔شنید یہی ہے کہ تیل کی قیمتوں میں 10روپے فی لیٹر اضافہ ہوگا “خوئے بد رابہانہ ہائے بسیار “یہ کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں مگر حکمران اپنی اندرونی کمزوری کا قطعاً ذکر نہیں کرتے کہ جو سود در سودر پر اربوں روپوں کے قرضے لے رکھے ہیں اب ان کو واپس کرنے کے لیے کوئی راستہ نظر نہیں آتا صرف یہ کہ بھاری سودوں پر مزید قرضہ لیکر سابقہ قسطیں واپس ہوسکیں گی۔
سرکاری خزانہ پر ڈاکہ زنی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رہنے سے ہمارے روپے کی قیمت کی شدید کمی سے اس کی ویلیو ختم ہوجانے پر ہماری کمزور معیشت کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا ہے۔ایوبی دور کا 4 روپے کا ڈالر اب 114کا ہو گیا ہے “شرم ہمیں مگرکیوںنہیں آتی” ہم دنیا کے ذلیل ترین اور مکمل غیر اسلامی نظام سود کو جب تک نہ چھوڑیں گے ہماری معیشت روز بروز مزید زوال پذیر ہوتی جائے گی۔سودی نظام کے بارے میں تو واضح ہے کہ یہ خدا اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے مترادف ہے اور جو مسلمان قوم اپنے عزوجل اور رحمت اللعالمین کے خلاف ہی جنگ میں ملوث ہو وہ کیسے خوشحال ہو کر ترقی کرسکتی ہے؟سودی نظام کے مکمل خاتمے کے وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف سابقہ دور میں جناب شریف کی حکومت ہی نے سپریم کورٹ سے اسٹے آرڈر جاری کروایا تھا اور یہ قطعاً انہونی نہ ہے کہ اسی سراسر کافرانہ کام کے ارادتاً سرزد ہوجانے سے ہی نواز اینڈ کو خدا کے عذاب تلے غرق ہوتے جارہے ہوں۔
مٹی کا تیل 10روپے پٹرول سوا پانچ روپے اور ڈیزل وغیرہ ساڑھے چار روپے مزید جب بڑھے گا توٹرانسپورٹ کے کرائے بھی اسی تناسب سے بڑھیں گے اور فروٹ سبزیاں کھیتوں سے و دیگر مصنوعات کارخانوں سے پیدل چل کر نہیں بلکہ کسی نہ کسی ٹرانسپورٹ ویگنوں بسوں ٹرکوں ،ٹریکٹروں کے ذریعے ہی پہنچتی ہیں وہ مہنگا پٹرول ڈیزل استعمال کریں گے تو لا محالہ کرائے بڑھائیں گے جن کا براہ راست اثر تمام کھانے پینے کی روزمرہ کی استعمال کی اشیاء سبزی فروٹس پر پڑے گا صنعتی مصنوعات بھی مزید مہنگی ہوں گی حتیٰ کہ گوشت مہیا کرنے والے جانور اور مرغی تک بھی ٹرکوں ویگنوں پر جب شہروں و دیگر سیل پوائنٹس پر لائی جائیں گی تو لازماً قیمت مہنگے تیل کا خرچہ ڈال کر بڑھ جائے گی صنعتکار حکمران ہیں کہ انہیں کسی قسم کے امن عامہ کے قیام ،غربت مہنگائی دہشت گردی بیروزگاری کے خاتمے کی کہاں ضرورت ہے ؟ انہیں تو بنکوںمیں اپنے سرمایوں کے بڑھانے اور کسی اور لیکس میں بیرون ملک جمع کروانے کا ہی دن رات خیال رہتا ہے اور پانامہ لیکس سے جان چھڑوانا بھی ان کی جان کا عذاب بنا ہوا ہے۔
اب شنید تو یہ بھی ہے کہ برائلر مرغی کی صنعت پر بھی شریفوں اور ان کے لواحقین کا قبضہ ہو چکا ہے اسی لیے تو ایک سال میں مرغی گوشت کی قیمت میں 88روپے کا اضافہ ہوچکا ہے قہر خداوندی کیوں نہیں نازل ہوتا؟ غرقاب کیوں نہیں ہو جاتے ؟چلوں بھر پانی میں ڈوب کیوں نہیں مرتے ؟پٹرول بم جب پھٹتا ہے تو مہنگائی کا جن خوشی سے الٹی چھلانگیں لگاتا ہے کہ اب میں ان لوگوں کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک بھی نچوڑ ڈالوں گا۔مظلوم عوام اپنے ننھے منے بال بچوں سمیت نہروں دریائوں میں چھلانگیں لگاتے ڈوبتے مریں یا پھر خود سوزیاں کریں کہ”ٹھڈ نہ پئیاں روٹیاں تے سبھے گلاں چوٹھیاں”ایسا ہونا گڈ گورننس کے منہ پرایک زناٹے دار تھپڑ ہے شروع سال میں جب پٹرول بم پھٹے گا تو واقعی اس کی تکلیف ایٹم بم کے پھٹنے کی طرح ہی ہوگی در اصل پٹرول کی قیمت خرچے ڈال کر 43روپے فی لیٹر بنتی ہے مگر ایسا ہو تو حکمرانوں کے اللے تللے ،عیاشیاں و لن ترانیاںکیسے پوری ہوں گی؟اسی کمائی سے توووٹوں کی خرید وفروخت کرکے وڈیرے صنعتکار دوبارہ عوام کی گردنوں پر سوار ہوجائیں گے کہ” خون مزدور شرابوں میں ملادیتے ہیں”بالآخر پسے ہوئے طبقات کے لوگ اللہ اکبر اور ختم المرسلین کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں ظالمانہ پلید نظام و حکومت کے خاتمہ کا موجب بنیں گے۔