انمول یادیں

Municipal Elections

Municipal Elections

تحریر : سجاد علی شاکر

راقم مدت بعد قلم پکڑے پرانی ان وادیوں میں کھونے کی کوشش میں تھا کہ یک دم اند ر سے آواز نکلی کیوں نا گذرے ہوئے ان ایام کا تذکرہ اپنے دوستوں سے کیا جائے جن دنوں راقم اپنے دوستوں اور پڑھنے والوں سے دور رہا ۔ 2015سے اپنے اس آخری کالم کا ذکر کرتا چلوں جس میںراقم اپنی ذاتی ذندگی کے نئے باب کھولنے کی ڈگر پر چل پڑا تھا ۔مجھے آج بھی وہ شام یاد ہے جس دن میری بیگم صاحبہ اپنے میٹھے میٹھے طعنووں سے میری روح کو غذا پہنچا رہی تھی اور راقم نے تنگ آ کر اپنے دوست عرفان سے کاروبار کے متعلق مدد مانگی تھی ۔بتاتا چلوں عرفان میرے گھر میں روزدودھ دیتا ہے اور اسی بنا پر اس سے اچھا تعلق بن چکا تھا ۔عرفان نے مشورہ دیا کہ دونوں بھائی مل کر کاہنہ بازارمیں چائے کا سٹال کھول لیتے ہے۔بات بڑی عجیب سی لگی مگر گھر کے حالات سے تنگ آ کر راقم نے حامی بھر لی۔

اگلے ہی روز راقم عرفان کے ہمراہ غازی روڈباذارسے چائے پکانے کا سارا سامان خرید کر اپنے لئے دھونڈی بازار میں چھوٹی سی دوکان( جسے راقم نے دو ہزار روپے ماہوار میں لے رکھا تھا ) میں رکھااورطے پایا کے کل ہم مل سارے بازار والوں کو اچھی سی چائے بنا کر فری پلا ئے گے۔گھر جا کر عرفان نے کال کی کے سلنڈر تو ابھی ہم نے لیا ہی نہیں راقم کی ذمہ داری لگائی گئی کہ کل وقت مقررہ سے پہلے سلنڈر میں گیس بھرا کر لے آئے ۔ راقم حسب حکم سلنڈر والی دوکان پر اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک سے موبائل کی گھنٹی بجی ۔کال ماموں جا ن کی تھی ارجنٹ حکم صادر کیا گیا کہ اپنے کاغذات لے کر ماڈل ٹاون چلے جائو وہا ں پر آپ کے چھوٹے ماموںامتیاز آپکا انتظار کر رہے ہے اور اپنے کاغذ الیکشن کے لئے جمع کرواں۔راقم چونکا یہ کیسی بات سننے کو ملی الیکشن لڑوں گا اور وہ بھی میں جس کے پا س گھر میں راشن کے لئے بھی بندوبست نہیں تھا مگر دل ہی دل میں خوش بھی تھا کہ میں بھی بڑا آدمی بن جاوں گا سب لوگ مجھے سلام کیا کرے گے فلاں فلاں فلاں۔۔۔۔۔۔راقم گو مگوں کا شکار تھا کہ ایک اور کال کی گھنٹی بجی اب کی بار کا ل پر شوکت قریشی صاحب جو کے سابقہ جنرل کونسلر اور اور ذبردست صلا حیت کے حامل انسان ہے۔

انہوں نے بھی وہی بات کی ۔راقم خیالوں کی دنیامیںغم ہو گیااور اپنے لکھے ہوئے الفاظ یاد کرنے لگا ۔۔۔۔بلدیاتی الیکشن یہ کیسی دلچسپ اور حیرت انگیز بات ہے کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کسی جمہوری حکومت نے ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے، اچھے برے بلدیاتی نظام فوجی ڈکٹیٹروں ہی کے دور میں قائم کیے گئے۔ہمارے ملک میں جمہوریت ابھی تک لولی لنگڑی ہے اور سیاسی مفکرین اس لولی لنگڑی جمہوریت کو آمریت سے بہتر قرار دیتے ہیں۔ بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے جس ملک کے سیاستدان نرسری ہی کو مفلوج کرکے رکھتے ہوں، اس ملک میں جمہوریت کے فروغ کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔

ہمارے ملک میں اگر جمہوریت کو فروغ دینے اور اسے عوامی بنانے کی کوشش کی جاتی تو آج جمہوریت کی وہ شکل نہ ہوتی جس میں عوام کا حصہ صرف 5 سالوں میں ایک بار اشرافیہ کے حق میں ووٹ ڈالنے تک محدود ہے۔پہلی بار شدید عوامی اور میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کروائے جا رہے تھے لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ منتخب بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم کردیا گیا تھا۔ بلدیاتی اداروں کی دنیا بھر میں اہمیت کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ بلدیاتی ادارے عوام کے مقامی اور علاقائی مسائل حل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہوتے ہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو سیاستدانوں کی پہلی تربیت بلدیاتی اداروں ہی میں کی جاتی ہے اور قومی سیاست میں داخل ہونے سے پہلے امیدواروں کو بلدیاتی اداروں میں عملی تربیت حاصل کرنا پڑتی ہے۔بدقسمتی سے ہماری سیاست کبھی عوامی نہیں رہی ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری جمہوریت بھی عوامی نہ رہی بلکہ اشرافیائی بن کر رہ گئی۔

بلدیاتی نظام میں بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی اختیارات حاصل ہوتے ہیں چونکہ اختیارات کی تقسیم اشرافیہ کی فطرت اور مفادات کے خلاف ہوتی ہے۔ اسی لیے حکمران اشرافیہ بلدیاتی اداروں کی مخالف رہتی ہے، اختیارات کی تقسیم کا خوف ہی ہماری اشرافیائی جمہوریت پرکسی اشرافیائی جمہوریت میں نہ بلدیاتی انتخابات کروائے گئے نہ بلدیاتی نظام کو پنپنے دیا گیا۔سال 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں جو حکومتیں برسر اقتدار آئیں اگر وہ عوام سے مخلص ہوتیں اور عوامی مسائل حل کرنا چاہتیں تو بلدیاتی اداروں کوکام کرنے کی آزادی دیتیں اور انھیں مالی اور انتظامی اختیارات دیتیں لیکن چونکہ حکمران طبقات نہ عوام سے مخلص ہیں نہ اختیارات کی تقسیم پر آمادہ ہیں اسی لیے بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے اور وہ اربوں روپوں کے فنڈز جو بلدیاتی اداروں کا حق ہیں وہ اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو دے رہی ہیں جو ان بھاری فنڈزکے حقدار نہیں ہیں۔

میڈیا کی خبروں کے مطابق ایم این ایز کو 94 ارب روپوں کے فنڈز دیے گئے ہیں اور ہماری اشرافیائی روایت کے مطابق یہ بھاری فنڈز عوام کے علاقائی مسائل کے حل میں استعمال کرنے کے بجائے خرد برد میں استعمال ہوں گے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے جب بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم کر دیا جائے گا تو پھر بلدیاتی ادارے کس طرح اپنی ذمے داریاں پوری کرسکیں گے؟یہ ساری خرابیاں ہماری اشرافیائی جمہوریت کی پیدا کردہ ہیں جمہوری قیادت، بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی پیدا کی جاتی ہے اور ہماری اشرافیہ اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے کہ بلدیاتی نظام کو فعال رکھا گیا تو ان اداروں سے سیاسی قیادت ابھرے گی اور یہ قیادت نچلے طبقات پر ہی مشتمل ہوگی اور اشرافیہ سیاست میں نچلے طبقات کی قیادت کو آگے آنے دیتی ہے تو اس کی 70 سالہ اجارہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ یہ ہے وہ خوف جو بلدیاتی اداروں کو مفلوج کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

Sajjad Ali Shakir

Sajjad Ali Shakir

تحریر : سجاد علی شاکر