کیاآپ یہ مانتے ہیں کہ غرور اِنسانوں، زمانوں اور تہذیبوں کی تباہی کا پہلا زینہ ہے..؟ اگر آپ میری اِس بات سے متفق ہیں تو اِس پر ضرور غور کیجئے گا اور پھر آپ جس نتیجے پر بھی پہنچیں مجھے بھی ضرور بتایئے گا..تا کہ میری نالج میں بھی اضافہ ہو اور میں اپنے اِس خیال کو مزید تقویت دے سکوں، اگرچہ آج میرا قوی خیال یہ بھی ہے کہ اقوامِ کُل میں جتنے بھی زمانے اور اِن زمانوں میں جتنے بھی معاشرے اور اِن معاشروں میں جتنے بھی مذاہب اور اِن مذاہب میں جتنے بھی اِنسان بستے ہیں اور اِن سب اِنسانوں میں جتنے بھی اہلِ دانش اور مفکرانِ قوم وملت موجود ہیں اُن سب کا بھی بس ایک یہی کہنا ہو گا کہ ہر زمانے کے ہر معاشرے کی ہر تہذیب کے ہر اِنسان، کو غرور نے ہی تباہ کیا ہے اُن میں خواہ طاقت کا غرور ہو، یا قابلیت کا غرور ہو یا اپنی اپنی نیکی نامی کا یا دولت مندہونے کا غرور ہو غرض کہ اُن سب ہی کی تباہی اور بربادی میں غرور ہی کارفرما رہا ہے اور آج بھی یہی غرور ہی تو ہے جس نے اِس صدی کے ہر معاشرے میں بسنے والے ہر اِنسان اور ہر تہذیب کو بھی تباہ وبرباد کر رہاہے۔
یہاں مجھے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورپیارے حضرت مصطفیۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادگرامی یادآگیاہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاہے کہ” قیامت کے دن متکبر آدمی چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی صُورت میں اٹھائے جائیں گے ہر طرف سے ذلت اِنہیں ڈھانپ لے گی اِنہیں جہنم کے اندربولس نامی قیدخانے کی طرف لے جایاجائے گا”یعنی کہ نبی آخری الزمان حضرت محمد مصطفیۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس فرمان کے بعد عالمِ انسانیت کو غرور سے توبہ کرلینی چاہئے اور اگر کوئی اِس کے بعد بھی غرور سے جھٹکارہ حاصل نہ کرے تو پھر ایسا اِنسان اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آج روئے زمین پر جتنے بھی فسادات اور بُرائیاں پھیلی ہوئی ہیں یا جو بھی پھیل رہی ہیں اِن سب کا مرکز و محور اِنسانوں میں جنم لینے والی غرور کی وہ ظاہری و باطنی کینسر جیسی بیماری ہے جس نے اِنسانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، آج اِس اِنسانی تباہی پر اہلِ دانش کا یہ کہنا ہے کہ اگر اِنسان کسی کو مٹانا چاہتے ہیں تو وہ سب سے پہلے غرور اور تکبر کو مٹائیں جس کی وجہ سے ہر معاشرے کے ہر اِنسان بُرائی کے شکنجے میں جکڑتے چلے جا رہے ہیں، آج جن اِنسانوں میں غرور کینسر کی طرح پھیل چکاہے اِن ہی لوگوں سے متعلق شیطان کا دوٹوک یہ کہنا ہے کہ” غرور کے خمار میں مست ومگن رہنے والے دولت مند میرے اچھے دوستوں میں سے ہیں” یعنی شیطان نے اپنے جگری دوستوں کی فہرست میں اُن دولت مندوں کو بھی شامل کر رکھا ہے جو دولت کے نشے کو غرور کا تڑکا لگا دیتے ہیں، اور جب دولت پر غرور کا تڑکا لگ جائے تو پھر لامحالہ دولت مند معاشرے کے غریب طبقے پر اپنے غرورکا رعب ڈالے گا اور یہیں سے دیگر بُرائیوں کے در کُھلتے چلے جائیں گے اور جب جس معاشرے میں ایسا ہونے لگے تو پھر سمجھ لو کہ اِس معاشرے میں نیکی کے دروازے بند اور اچھائیاں ختم ہونے لگتی ہیں، کیوں کہ دولت کے نشے میں مست اِنسان شیطان کا دوست ہوتا ہے اور اِس بنا پر غرور کے رنگ میں رنگ کر دولت مند انسان ایک ایک کر کے سب سے نفرت کرتا جاتا ہے اور جب کسی معاشرے کے اِنسانوں کے درمیان محبتیں مسدود ہو جاتی ہیں اور پھر خود بخود نفرتیں بڑھنے لگتی ہیں اور جس معاشرے میں نفرتیں بڑھ جاتی ہیں تو پھر فسادات کا پھیلنا لازمی ہو جاتا ہے۔
Riots
جبکہ یہ حقیقت ہے کہ آج میرے مُلک میں فسادات سمیت جتنی بھی دیگر بُرائیاں موجود ہیں، اِن سب کے پسِ پردہ بھی ایک یہی غرور ہی کارفرما ہے اور اِس میں غرق وہ صاحب اقتدار اور حزبِ اختلاف و غیر ریاستی شدت پسند عناصر بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی کسی نہ کسی خوبی اور اپنی کسی نہ کسی خامی کو درست گردان کر اِس پر غرور کیا ہے اور پھر یہ سب کے سب اپنے اِسی غرور کی دلدل میں ایسے دھنستے چلے گئے ہیں کہ آج یہ اِس دلدل کی تہہ میں اپنے اپنے قدم جما کر اپنے قداتنے اُونچے کر کے کھڑے ہو چکے ہیں کہ غرور کی یہ دلدل اِن کو چھوڑ ہی نہیں رہی ہے اور اَب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ یہ بھی غرور کی دلدل سے خود نہیں نکلنا چاہتے ہیں۔ آج میرے وطن عزیز کو کئی دہائیوں سے دہشت گردی سمیت جن مسائل کا سامنا ہے اِن سب سے بے پرواہ ہمارے حاکموں کو جس خوش فہمی نما غرور نے مُلک کو یکے بعد دیگرے مسائل سے دو چار کیا وہ یہ تھا کہ یہ دہشت گردی سمیت ہر مسلے کا حل چٹکی بجاتے ہی نکال لیں گے مگر بدقسمتی سے اِن کے اِسی غرور اور تکبر نے نہ صرف اِن کی اِس خوش فہمی کو خا ک میں ملا دیا بلکہ اِن کے اِس غرور اور تکبر کی وجہ سے مُلک کو تباہی و بربادی کے اُس نہج تک پہنچ گیا ہے کہ آج مُلک میں دہشت گردی اور مسائل کا تو راج ہے مگر بدقسمتی سے مُلک اپنی ترقی اور خوشحالی سے محروم ہو کر اپنے اچھے دنوں کو بھی ترس رہا ہے، بیشک اِس سارے عمل میں ہمارے حکمرانوں اور حکومت کے لئے بھی یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ اَب ایسے میں یہ اپنے غرور کو توڑیں یا مُلک و ملت کی بقا وسالمیت کے لئے کچھ ایسے اقدامات کریں کہ جس سے مُلک میں مثالی امن وامان کی فضاء قائم ہو اور مُلک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔
آج اِس سے انکار نہیں ہے کہ حکومت مُلک میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن وامان کے قیام کے لئے اپنا سر خم کر کے اپنا غرور توڑنا چاہ رہی ہے تو پھر اُدھر اسلحہ بردار شدت پسندوں اور حکومتی رٹ کے مخالفین کو بھی اپنی طاقت کا غرور توڑ کر اپنی گردنیں حکومت کے سامنے جھکا کر اپنا لچکدار رویہ دکھانا چاہئے اور آج اگر حکومت نے اپنا غرور توڑ کر اسلحہ بردار شدت پسند اپنے ناراض بھائیوں کو منانے کے لئے انتہائی نیک نیتی کی بنیاد پر پُرامن مذاکراتی سلسلہ شروع کر دیا ہے تو پھر ہمارے کسی وجہ سے ہم سے ناراض شدت پسند بھائیوں کو بھی یہ چاہئے کہ وہ بھی حکومتی مذاکراتی ٹیم کی باتیں اور نکات کو مانیں اور اپنے غیر مشروط نکات کے ساتھ مذاکراتی عمل کو مُلک وملت کی سلامتی اور اِسے دہشت گردی اور خون خرابے سے پاک کرنے کے لئے اپنا غرور اور اَنا کا خود ساختہ کھڑا کیا گیا پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیں اور مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کر دیں۔