تحریر : رشید احمد نعیم اعلان نبوت کے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ انہیں ایک گھر میں سے کسی کے رونے کی آواز آئی۔ آواز میں اتنا دردتھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار اس گھر میں داخل ہوگئے۔دیکھا تو ایک نوجوان جو کہ حبشہ کا معلوم ہوتا ہے چکی پیس رہا ہے اور زارو قطار رو رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں ایک غلام ہوں۔ سارا دن اپنے مالک کی بکریاں چراتا ہوں شام کو تھک کر جب گھر آتا ہوں تو، میرا مالک مجھے گندم کی ایک بوری پیسنے کے لیے دے دیتا ہے جس کو پیسنے میں ساری رات لگ جاتی ہے۔ میں اپنی قسمت پر رو رہا ہوں کہ میری بھی کیا قسمت ہے میں بھی تو ایک گوشت پوست کا انسان ہوں۔ میرا جسم بھی آرام مانگتا ہے مجھے بھی نیند ستاتی ہے لیکن میرے مالک کو مجھ پر ذرا بھی ترس نہیں آتا۔کیا میرے مقدر میں ساری عمر اس طرح رو رو کے زندگی گزارنا لکھا ہے؟؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے مالک سے کہہ کر تمہاری مشقت تو کم نہیں کروا سکتاکیوں کہ وہ میری بات نہیں مانے گا،ہاں میں تمہاری تھوڑی مدد کرسکتا ہوں کہ تم سو جاؤ اور میں تمہاری جگہ پر چکی پیستا ہوں۔ وہ غلام بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کرکے سو گیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی جگہ چکی پیستے رہے، جب گندم ختم ہوگئی تو آپ اسے جگائے بغیر واپس تشریف لے آئے۔
دوسرے دن پھر آپ وہاں تشریف لے گئے اور اس غلام کو سلا کر اسکی جگہ چکی پیستے رہے۔ تیسرے دن بھی یہی ماجرا ہوا کہ آپ اس غلام کی جگہ ساری رات چکی پیستے اور صبح کو خاموشی سے اپنے گھر تشریف لے آتے ۔چوتھی رات جب آپ وہاں گئے تو اس غلام نے کہا، اے اللہ کے بندے آپ کون ہو؟ اور میرا اتنا خیال کیوں کر رہے ہو؟۔ہم غلاموں سے نہ کسی کو کوئی ڈر ہوتا ہے اور نہ کوئی فائدہ۔تو پھر آپ یہ سب کچھ کس لیے کر رہے ہو؟؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ سب انسانی ہمددری کے تحت کر رہا ہوں اس کے علاوہ مجھے تم سے کوئی غرض نہیں، اس غلام نے کہا کہ آپ کون ہو؟،،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں علم ہے کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟۔اس غلام نے کہا ہاں میں نے سنا ہے کہ ایک شخص جس کا نام محمدۖ ہے اپنے آپ کو اللہ کا نبی کہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی محمدۖ ہوں۔یہ سن کر اس غلام نے کہا کہ اگر آپ ہی وہ نبی ہیں تو مجھے اپنا کلمہ پڑھائیے کیوں کہ اتنا شفیق اور مہربان کوئی نبی ہی ہوسکتا ہے جو غلاموں کا بھی اس قدر خیال رکھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا۔جو دین اور جو پیغمبرۖ غلاموں پر اس قدر مہربان ہو بھلا وہ صنف ِ نازک کے لیے نعمت کا درجہ کیو ں نہیں رکھے گا؟وہ عورت کو بلند مقام کیوں نہیں عطا کر ے گا ؟ کیونکہ عورت عزت و احترام کا نام ہے عورت والدین کے لیے باعثِ فخر، بھائیوں کے لیے باعثِ عزت،شوہر کے لیے قیمتی سرمایہ اور اولاد کے لیے عمدہ نمونہ ہوتی ہے۔عورت رات کا تارا ،صبح کا نور اور شبنم کا قطرہ ہے عورت مرد کی آنکھ کی بینائی ہے۔عورت خدا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے جو مرد کے دل کا سکون ،روح کی راحت،ذہن کا اطمینان اور بدن کا چین ہے جبکہ عورت انسانی تمدن کا جزوِلازم ہے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عورت دنیا میں پیار کا تاج محل ہے اگر عورت نہ ہوتی تو انسانوں کی زندگی جنگلی جانوروں سے بھی بد تر ہوتی۔
Women
عورت عظمت کا مینار ہے اگر آپ اسلام کا مطالعہ اس جہت سے کریں کہ اسلام سے پہلے عورت کا کیا مقام تھا اور اسلام نے اُسے کیا مقام دیا تو آپ بے ساختہ بول اُٹھیںگے کہ عورت تحت الشریٰ تھی اسلام نے فوق الثریابنادیا،وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی اسلام نے اُسے زندگی عطا کی۔وہ زیبِ میخانہ تھی اسلام نے اُسے زینتِ کاشانہ بنا دیا۔وہ پامال تھی اسلام نے اُسے با کمال بنا دیا۔وہ برباد تھی ،ناشاد تھی۔ اسلام نے اُسے شاد کیا ،آبا د کیا۔اُس کا مقام صرف مرد کے دل کو لُبھانا تھا اسلام نے اُس کے ذُمے گھر کا سجانا لگا دیا۔ اگر اسلام عورت کو یہ مقام نہ دیتا تو کوئی باپ بیٹی کی پیدائش پر سر اُٹھا کر نہ چل سکتا۔اگر اسلام عورت کو مقام نہ دیتا تو وہ ہمیشہ کی طرح بتوں اور دیوتائو ں کی بھینٹ چڑھتی رہتی۔اگر اسلام عورت کو عزت نہ دیتا تو بیٹی کی تربیت جنت کی ضمانت نہ ہوتی۔ ماں کی خدمت جنت کا پروانہ نہ ہوتی۔افسوس کہ آج کے خودساختہ تعلیم یافتہ طبقہ کی طرف سے یہ بات تواتر سے آ رہی ہے کہ عورت ہمارے معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ ہے،اس کے حقوق پامال ہو رہے ہیں ،اس کا استحصال ہو رہا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ یورپ نے عورت کو آزادی دی ہے اُس کو حقوق دیئے ہیں۔اُس کو مرد کے برابر لا کھڑا کیا ہے جس کی بدولت عورت خوب ترقی کر رہی ہے۔
جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ دنیا میں کسی مذہب اور قانون میں، کسی تمدن اور سوسائٹی میں عورت کو وہ مقام اور مرتبہ نہیں دیا گیا جو مقام اور مرتبہ عورت کو اسلام میں دیا گیا ہے۔غیر اسلامی تہذ یبوں میں عورت کی حق تلفی ہوتی رہی۔ اُس کے ساتھ نا انصافی ہوتی رہی۔ اُسے منحوس اور کمتر سمجھا گیا۔اُسے شیطان کی ایجنٹ اور شروفساد کی جڑ ثابت کیا گیا۔ کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ ” یہ بد نما داغ انسان کی پیشانی سے کبھی دھویا نہیں جا سکے گا کہ زما نہِ جہالیت میں مرد نے اُسی گود کو بے عظمت و بے قیمت کیا جس گود میں پرورش پا کر آدمی بنا ۔”یونا نیوں نے عورت کو شیطان کی بیٹی اور نجاست کا مجسمہ قرار دیا تو رومیوں نے جا نورکا درجہ دیاجبکہ اہلِ عرب میں زمانہِ جہالیت میں لڑکیوں کو زندہ در گور کیا جاتا تھا عورت کی خریدوفروخت کی جاتی تھی ہندو عورت کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور عیسائیوں کے ہاں عورت کی کیا قدروقیمت تھی اس کا اندازہ اس با ت سے لگا یا جا سکتا ہے کہ ” ٥٨٢ء میں کلیسا کی ایک مجلس نے فتویٰ دیا تھا کہ عورتیں روح نہیں رکھتیں”۔
جبکہ محسنِ انسانیت حضرت محمدۖ نے عورت کو ذلت و پستی کی گہرائیوں سے اُٹھایا اور اُسے عظمت و رفعت کے بلند مقام پر فائز کر دیا ۔تعجب ہے اُن پر جو اسلام کو عورتوں کے حقوق کا غاصب قرار دیتے ہیں۔کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اسلام کے علاوہ کونسا دوسرا مذہب ہے جس نے اچھی بیوی کو نصف ایمان قرار دیا ہو؟؟؟ جس نے بیوائوں کو عزت کی مسند پہ بٹھایا ہو؟؟ جس نے عورت کے حُسن وجمال کو نہیں اُس کے عورت ہونے کو قابلِ احترام ٹھہرایا ہو ؟؟؟عورت کو ماں،بیٹی،بہن اور بیوی کی حیثیت سے جو عظمت ،جو محبت ،جو مقام اور احترام اسلام نے دیا ہے وہ دنیا کے کسی قدیم قانون ،مذہب یا تہذیب نے نہیں دیا۔ارشادِ خدا وندی ہے”اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم ماں باپ سے حُسنِ سلوک سے پیش آیا کرو، اگر تیرے پاس اُن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جا ئیں تو اُن کو کبھی اُف تک بھی مت کہنا اور اُن کو نہ جھڑکنا اور اُن سے خوب ادب سے پیش آنا ،اوراُن کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان د ونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انھوں نے مجھ کو بچپن میں پالا اور پرورش کیا”۔
Law
کوئی بتا سکتا ہے کہ اسلام کے علاوہ وہ کون سا قانون وہ، کون سا مذہب ، و ہ کون سا صحیفہ ِ اخلاق ہے جس میں والدین کو اُف تک کہنے کی اجازت نہ ہو ؟؟؟ ارشادِ نبویۖ ہے ”جنت ما ں کے قدموں تلے ہے ” دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ” تم پر اپنی مائوں کی نا فرمانی اور حق تلفی حرام کر دی ہے ” والدین کی عظمت و فضیلت کا یہ خوبصورت حکم صرف اسلام میں ہی ہے اسلام نے بیٹی کی حیثیت سے بھی عورت کو نمایاں مقام دیا ہے بیٹی کو رحمت قرار دیا گیا ۔بیوی کو نصف ایمان اور وراثت میں حق دار بنا دیا گیا۔اگر آج کے مسلمان اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے عورتوں پہ ظلم کرتے ہیں یا اپنی بیویوں سے غلط برتا ئو کرتے ہیں تو ان احمقوں اور جا ہلوں کی وجہ سے اسلام کو مورد الزام نہیں ٹھہرا یا جا سکتا اسلام عورت کو تجارت و ملازمت کی اجازت دیتا ہے نبی اکرمۖ نے جس عظیم خاتون کو پہلا شرف ِ زوجیت بخشا وہ بھی ایک کامیاب تاجر تھی۔لیکن عورت اگر تجارت یا ملازمت کر نا چاہتی ہے تو اُ س کے لیے کچھ حدود مقر ر ہیں۔بلا روک ٹوک اُسے تجا رت یا ملازمت کی اجازت نہیں ہے اجنبی مردوں کے ساتھ خلوت میں میٹنگ کر نے کی اجازت نہیں ہے ۔بلا شرعی پردہ کے کسی غیر محرموں کے ساتھ میل ملاپ کی اجازت نہیں۔اکیلے لمبا سفر کرنے کی اجازت نہیں۔اسلام نے عورت کو معاشی جدو جہد سے آزاد رکھا ہے اور اُس کے نان نفقہ کا بوجھ اُس کے باپ پر رکھا ہے۔
اس کے بھائی پر رکھا ہے ۔ اس کے شوہر پر رکھا ہے اس کے بیٹو ں پر رکھا ہے اس لیے عورت کو کاروبار کرنے ، ملازمت کرنے یا مزدوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض مکار این جی او کسی ایک بے سہارا خا تون کا واقعہ لے کر بڑ ی ہو شیاری اور ملمع سازی سے اُسے اُچھالتی ہیں کہ عورت کو ملازمت کی اجازت نہیں دی جا ئے گی تو بیچاری بے سہارا اور بیوہ خواتین اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کہاں سے پالیں گی؟؟؟ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ عورت کو اسلامی دائرے میں رہتے ہوے کاروبار یا ملازمت کرنے کی اجازت ہے لیکن عورتوںکے یہ جھوٹے وکیل عورتوں کے ہمدرد نہیں بلکہ مکار اور فریبی لوگ ہیں ان کو عورتوں کے مسائل سے دلچسپی نہیں بلکہ اُن کے حُسن و جمال سے دلچسپی ہوتی ہے ان کو عورتوں کی مجبوریوں یا پر یشانیوں کا کوئی خیال نہیں ہوتا بلکہ یہ بد بخت تو عورت کی جوانی ،عورت کے جسم اور عورت کی شکل و صورت کے غم میں مرے جا رہے ہوتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کو بے سہارا عورتوں اور بیوہ خواتین کی معاشی پریشانیوں کا غم ہے تو پھر یہ بیوہ اور ادھیڑ عمر کی عورتوں کو ملازمت کیوں نہیں دیتے ہیں ؟؟؟ اُنہیں اپنی سکریٹری کیوں نہیں بنا تے ہیں ؟؟؟اُنہیں ائرہوسٹس کیو ں نہیں بناتے ہیں ؟؟؟ اُنہیں نرسیں کیوں نہیں بناتے ہیں ؟؟؟ کیا مجبور صرف جوان لڑکیاں ہی ہوتی ہیں؟؟؟۔
کیا ضرورت مند صرف حُسن و جمال والی ہی ہوتی ہیں ؟؟؟ کیا معاشی تنگی کا شکار صرف پُرکشش ہی ہوتی ہیں ؟؟؟ یورپ کے پرستارو ! فرق صرف اتنا ہے کہ اسلام عورت کے حُسن کو ، اُس کی جوانی کو تو پردے میں قید کرتا ہے لیکن عورت کو اُس کے حقوق دیتا ہے اسلام عورت کا مقام اس کے حُسن اور جوانی کے لحاظ سے متعین نہیں کرتا بلکہ اسلام عورت کو عمر کے ہر حصے میں قابلِ احترام ٹھہراتا ہے ۔ اسلام عورت کو بچپن میں شفقت دیتا ہے ،جوانی میں محبت دیتا ہے ، بڑھاپے میں عظمت دیتا ہے،اور مرنے کے بعد اُسے دعائے مغرفت کا حق دیتا ہے یورپ کے اندھے پرستارو!تم نے عورت کو کیا دیا؟؟؟ تم کہتے ہو کہ عورت کو آزادی دی مگر حقیقت یہ ہے کہ تم نے عورت سے اس کی آزادی چھین لی ہے۔تم نے عورت کی ممتا گُم کر د ی ہے ، تم نے عورت سے اس کا گھرگرہستن کا کردارچھین لیا ہے ، تم نے بہن کے سر سے آنچل غائب کر دیا ہے، تم نے بیٹی کو شفقت سے محروم کر دیا ہے۔
Women Fashion
تم نے عورت کے حُسن کا تماشا بنا دیا ہے ،تم نے اُس کی جوانی کو کھلونا بنا دیا ہے،تم نے عورت کے جسم کو جنسِ ارزاں قرار دے دیا ہے۔تم عورت کو شمعِ محفل بنانا چاہتے ہو مگر اسلام نے اُسے زینت ِکاشانہ بنایا ہے۔ تم عورت کے حُسن کو اُجاگر کرنا چاہتے ہو مگر اسلام نے اس کی نسوانیت کو نمایاںکیا ہے۔تم عورت کی قیمت اس کے ظاہر سے لگاتے ہو لیکن اسلام اس کی قیمت اس کے باطن سے لگاتا ہے۔تم عورت کو چوراہے پر لانا چاہتے ہو مگر اسلام اس کی عظمت و منزلت اس کے گھر میں ہی برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اسلام اعلان کرتا ہے کہ اللہ کے بندو! عورت کو عورت ہی رہنے دو اسی میں فائدہ ہے عورت کا، مرد کا، تمدن کا ، بچوںکا ،گھر کا ،دین کا اور دنیا کا۔جو مرد عورت کی مادر پدر آزادی کی آڑ میںاسے بے حیائی و بے پردگی پہ اُکساتے ہیں وہ حقیقت میں انسان نہیں وحشی اور شہوت پرست درندے ہیں۔ انسان نہیں انسانیت کے کے ماتھے کا بد نما داغ ہیں ۔انسان نہیں نسوانیت کے سوداگر ہیں۔انسان نہیں کینسر کے گلے سڑے پھوڑے ہیں۔انسان نہیں بشکلِ حیوان انسان ہیں ۔انسان نہیں بے حیائی کے پیکر ہیں۔
انسان نہیں ننگ انسانیت ہیں اور اسی طرح جو عورتیں ہر شعبے میں مردوں کی برابری کرنا چاہتی ہیں اور نمائش کے طور پر کام کرنا چاہتی ہیں صرف فیشن کے طور پر ۔محض جدت پسندی کی وجہ سے نوکری کرنے کے نام پر آزادی چاہتی ہیں وہ عورتیں نہیں ہیں بلکہ عورت کے نام پر بہت بڑا الزام اور دھبہ ہیں کیا وہ عورتیں ہیں جنہیں اپنے بچوں کی تربیت کی اور گھریلو فرائض کی کوئی فکر نہیں ،کیا وہ عورتیں ہیں جن کی زندگی کا مقصد صرف تھرکنا ،ناچنا اور مردوں کے دل لبھانا ہے،کیا وہ عورتیں ہیں جن کے جسم عریاں ہیں چہرئے عیاں ہیں اور جن کی لوچدار آوازیں فتنہ جہاں ہیں حقیقت میں یہ عورتیں نہیں بلکہ تہذیب کے چہرئے پر بد نما نشان ہیں یہ عورتیں نہیں ثقافت کے جسم پر چیچک کے داغ ہیں یہ عورتیں نہیں شرم و حیا کے جنازے ہیں یہ عورتیں نہیں بلکہ عورت کا کوئی مسخ شدہ ایڈیشن ہیں یہ عورتیں نہیں روح سے خالی لاشے ہیں اور ان کے مطالبات کو کسی بھی معاشرے میں پذیرائی نہیں مل سکتی باقی جہاں تک حقوق کی بات ہے تو جو حقوق اسلام میں دیے گیے ہیں وہ کسی اور مذہب میں نہیں دیے گیے۔
کوئی ایسا مذہب یا کوئی قا نون دکھائیں جس میں بیٹی کی تربیت کو جنت کی ضمانت بتا یا گیا ہو ، جس میں ماںکو اُف تک کہنے کی اجازت نہ ہو ، جس میں اچھی بیوی کو آدھا ایمان قرار دیا گیا ہو ،جس میں ماں کے قد موں کے نیچے جنت بتائی گئی ہو جس مذہب نے عورت کو اُس وقت عزت دی ہو جب عورت کے انسان ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بحثیں ہو رہی تھیں جس مذہب نے عورت کو علمی عملی اور اخلاقی میدان میں مرد کے برابر کھڑا کیا ہو پھر اسلام میں عورت کو حقارت کی نظر سے کس طرح دیکھا جا سکتا ہے؟؟جبکہ عورت کے بطن سے نبی بھی پیدا ہوتا ہے ، صحابی بھی پیدا ہوتا ہے ،اور محدث بھی پیدا ہوتاہے، مفسر ،قطب،ابدالی،ولی بھی اسی کے پیٹ سے جنم لیتا ہے اگر اسلام عورت کو حقوق نہ دیتا تو تاریخ میں کوئی صحابیہ،عاملہ،محدثہ اور مفسرہ نہ بنتی۔ اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے اُسی کانتیجہ ہے کہ آج عورت ماں، بہن ، بیٹی اور بیوی کے خوبصورت اور قابلِ احترام رشتے میں بندھی ہوئی ہے۔
Rasheed Ahmad Naeem
تحریر : رشید احمد نعیم 0301.4033622 rasheed03014033622@gmail.com