تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میرے سامنے بوڑھا باپ زاروقطار رو رہا تھا اُس کی ویران بنجرا نکھوں سے آنسو مو سلا دھار بارش کی طرح برس رہے تھے ۔شدت غم ، درداور بے بسی سے اُس کا بوڑھا جسم بید مجنوں کی طرح لرز رہا تھا اُس کی حالت اُس خزاں زدہ پتے جیسی ہو گئی تھی جو درخت سے ٹوٹ کر ہوائوں کے رحم و کرم پر ہو اُس کی معصوم ذہنی معذور بیٹی اپنے اوپر ہو نے والے ظلم سے بے خبر معصوم سپا ٹ نظروں سے ہما ری طرف دیکھ رہی تھی ۔ معصوم بچی پر ہو نے والے ظلم کے بارے میں سوچ کر ہی میرا جسم پسینے سے شرا بور ہو رہا تھا میں بے بسی کا بت بنا کھڑا تھا ‘میرے اعصاب دماغ تقریباً شل ہو چکے تھے بلکہ میرا دما غ سپا ٹ اور خالی ہو چکا تھا مجھے بلکل بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا بولوں کیابا ت کروں میں جو ہر ملنے والے سے کہتا ہوں پریشان نہ ہوں اللہ ضرور کو ئی راستہ نکالے گا ‘پروردگار کو ئی وسیلا بنا دے گا لیکن یہاں بوڑھے با پ اور بچی پر ہو نے والے ظلم کی شدت دیکھ کر میری زبان پتھر کی ہو گئی تھی الفاظ فقرے ہوا میں تحلیل ہو چکے تھے معصوم معذور بیٹی سے درندوں والا سلوک دیکھ کر میرے حواس معطل ہو چکے تھے غم اداسی دکھ پریشانی غصہ ڈپریشن میری ہڈیوں تک سرائیت کر گیاتھا کبھی میں بو ڑھے بے بس با پ کو دیکھ رہا تھا کبھی نور میں لپٹی گلابوں جیسی معصوم بیٹی کو دیکھ رہا تھا معصومیت کے نور میں ڈوبی بیٹی میرے سامنے تھی بیٹی کا جسم 16سے 18سال کا لگ رہا تھا۔
جبکہ ذہنی حالت چار پانچ سال کے بچے جیسی تھی کسی بیما ری یا حادثے کی وجہ سے بیٹی کی دما غی گروتھ بچپن میں ہی رک گئی تھی بو ڑھے غمزدہ با پ کی آہ وبکا ہ سے میرا دل و دما غ چھلنی چھلنی ہو رہا تھا با پ کے آنسو میرے جسم کو ریزہ ریزہ کر رہے تھے میرے جسم و جان شعور لا شعور پر بھی ما تمی سی کیفیت طا ری ہو نا شروع ہو گئی تھی بو ڑھا با پ شدت کرب سے با واز دھاڑوں کی صورت میں رو رہا تھا گلی سے گزرنے والے لو گ بو ڑھے با پ کی طرف متو جہ ہو نا شروع ہو گئے تھے اِس لیے بو ڑھے با پ اور اُسی کی نو ر میں لپٹی معصوم بے گنا ہ بیٹی کو گھر لے آیا دونوں کو بٹھا یا جو س منگوایا محبت سے پیش کیا ۔ اب میں آرام سے محبت بھری نظروں سے دونوں کو دیکھ رہا تھا بو ڑھے با پ کے مکمل بکھرے اعصاب کچھ نا رمل ہو نا شروع ہو ئے مجھے لگ رہاتھا کہ با پ کسی شدید خو ف میں مبتلا ہے وہ بار بار ادھر اُدھر دروازے کے با ہر آوازوں کو سن رہا تھا وہ ڈرا ہوا تھا جیسے کو ئی اُس کے تعاقب میں ہو جیسے اُس کو اور اُس کی معصوم بیٹی کو کو ئی ما رنا چاہتا ہو اب میں نے با پ کا خوف دور کر نے کے لیے حو صلہ افزا با تیں شروع کیں آپ بلکل پریشان نہ ہوں میں اورمیرا اللہ آپ کا ساتھ دیںگے ۔ میرے حو صلہ دینے پر بو ڑھے با پ نے اپنے اور بیٹی پر ہو نے والے ظلم عظیم کی داستان سنا ئی۔
بو ڑھا با پ بولامیںلا ہور سے سو کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے گائوں سے آیاہوںمیرا خاندان کئی نسلوں سے گائوں کے زمینداروں کی کمی گیری کر تا رہاہے مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب میں کمی گیری کر تا ہوا بچپن سے لڑکپن اور پھر بڑھا پے میں داخل ہو گیا میرا ایک بیٹا اور یہ بیٹی ہی اولاد تھی بیٹا میری طرح زمیندار کی نو کری کر تا بیٹی کو گھر میں میری بیوی سنبھالتی چند سال پہلے وہ بھی بھوک اور بیمار ی کے ہا تھوں منوں مٹی کے نیچے جا سوئی اب گھر میں کو ئی بھی نہیں ہو تا تھا اِس لیے مجبو ری کی بنا پر میں اپنی بیٹی کو بھی زمینوں پر لے جا تا شب و روز گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا کہ بیٹی نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا اللہ نے میری بیٹی کو بہت حسن سے نوازا تھا جو بھی دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جا تا لیکن جب دیکھنے والے کو پتہ چلتا کہ یہ تو معذور ہے تو بہت دکھی ہو تا ۔ میں اور میرا بیٹا زمینوں پر کام میں مصروف ہوتے تھے ہمیں پتہ ہی نہ چلا کب زمیندار نے بیٹی کو گندی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا کیونکہ ہم تو نسل در نسل زمینداروں کی نو کری میں لگے ہو ئے تھے زمینداروں کی وفاداری اور خدمت ہما ری ہڈیوں تک گھس چکی تھی ہم تو زمیندار کو خدا کے بعد سب سے بڑا سہارا سمجھتے تھے زمیندار جب کبھی بیٹی کو مسکراتی نظروں سے دیکھتا تو ہم اِسے غریب پروری سمجھتے کہ وہ کتنا رحم دل اور فیا ض ہے ہم غریبوں کا کتنا خیال رکھتا ہے پھر ایک دن زمیندار نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے تمہا ری بیٹی کا شہر کے بڑے ہسپتال سے علاج کرائوں ہم نے اِسے خدا کی مدد سمجھا اور فوری طور پر تیار ہو گئے اور پھر ہم نے بیٹی کو نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنا کر زمیندار کے ساتھ شہر بھیج دیا۔
Treatment
ایک ماہ سے زیادہ عرصہ بیٹی ہما ری گھر سے دوررہی ہم جب بھی زمیندارسے پو چھتے وہ یہی کہتا کہ اُس کا علاج ہو رہا ہے ہم نے کئی با رملنے کی درخواست کی لیکن وہ ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا کہ وہ یہاں سے بہت دور ہے میں اور میرا بیٹا بہت خو ش تھے کہ ہما را ما لک ہما رے ساتھ کتنا رحم دل ہے ہما را کتنا خیال رکھتا ہے لیکن ایک دن ہما رے لیے غم کا ایٹم بم پھٹ پڑا ہمیں زمیندار کے ایک اور نو کر نے بتا یا کہ میرا نا م نہ لینا ورنہ زمیندار مجھے جان سے مار دے گا تمہا ری بیٹی علا ج کے لیے کسی ہسپتال نہیں گئی ہو ئی بلکہ زمیندا ر کے ڈیرے کے خفیہ تہہ خا نے میں مو جو دہے ہمیں اِس با ت پر بلکل بھی یقین نہیں تھا لیکن جب ہم نے کھو ج لگا ئی تو یہ با ت سچ نکلی اب میرے بیٹے نے سختی سے جا کر کہا کہ میری بہن کو آپ نے قید کر رکھا ہے اُس کو واپس کرو میرے بیٹے کی گستاخی زمیندار کو بلکل بھی اچھی نہ لگی اُس کو زمیندار نے بھینس چوری میں اندر کرا دیا جو آج تک بند ہے اب زمیندار نے بد نا می کے خو ف سے بیٹی کو ہما رے حوالے کر دیا میری بیٹی کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی لیکن زمیندار کے خوف سے میں نے آواز بند رکھی کیونکہ زمیندار نے کہا تھااگر میں نے زبان کھو لی تو تمہا را بیٹا جیل میں ہی ما ر دیا جا ئے گا میں زہر کے گھونٹ پی کر چپ ہو گیا۔
لیکن اصل مسئلہ تو چند ما ہ بعد شروع ہوا جب بیٹی کے پیٹ کا سائز بڑھنا شروع ہوا تو میں نے دائی کو چیک کرا یا تو اُس نے کہا یہ تو ماں بننے والی ہے جب اِس کی اطلا ع زمیندار کو ہو ئی تو رات کے اندھیرے میں گھر آکر دھمکیاں دے گیا کہ فوری طور پر اِس بچے کو ضا ئع کرو جب دائی نہ کہا کہ اسطرح ماں بچہ دونوں مر جا ئیں گے تو زمیندار بو لا جو بھی کرو میری اِس بد نا می سے جان چھڑائو چند دن تو میں ٹال مٹول کر تا رہا لیکن پھر کسی نے مجھے بتا یا کہ زمیندار تمہا ری بیٹی کو اغوا کر کے قتل کر نا چاہتا ہے تو رات کے اندھیرے میں آخر میں نے گا ئوں کو خیر آباد کہہ دیا اب میں ایک در سے دوسرے در اپنی اور اپنی بیٹی کی جان کی حفاظت کی بھیک مانگتا پھر رہا ہوں۔
بو ڑھے با پ کی داستان غم میں نے اپنے رحم دل پو لیس آفیسردوست کو سنا ئی تو وہ خدا کی مدد بن گیا اُس نے فوری طور پر با پ بیٹی کی سیکو رٹی کا بندو بست کیا بچے کا DNA کرایا ملزم کو جب یہ پتہ چلا کہ پو لیس اُس کو پکڑنا چاہتی ہے اور DNAمیں وہ مجرم ثابت ہو گا تو وہ گھر سے بھا گ کر اشتہا ری ہو گیا اب اُس نے اشتہا ریوں کے ساتھ رہنا شروع کر دیا میں پچھلے کئی دنوں سے اِس ڈپریشن میں تھا لیکن آخر رب رحیم کریم کی لاٹھی حرکت میں آئی واردات کے دوران پو لیس مقا بلے میں زمیندار ما را گیا اور میں خدا کے عدل کے سامنے سجدہ ریزہوگیا کہ خدا کی لا ٹھی حرکت میں آتی ضرور ہے چاہے دیر سے ہی کیوں نا آئے۔ تاریخ انسانی کے اوراق ایسے ظالموں سے بھرے پڑے ہیں جن کا انجام عبرت ناک ہوا۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: [email protected] فون: 03004352956