تحریر : مدیحہ ریاض میں باسی ہوں پاکستان کے ایک چھوٹے سے دیہات کی ـ پاکستان میں خواندگی کی شرح کو بڑھا چڑھا کر دنیا سے جھوٹ بولنے والو اپنے لئے جہنم کی آگ مت خریدوـپاکستان کے دیہاتوں میں آبادی دو طبقات میں تقسیم ہے 1ـکھاتے پیتے اونچی ذات والے گھرانے 2ـکمی کمین غربت کی چکی میں پسنے والے لوگ…..جن کے گھروں میں آئے دن اکثر ہی دو وقت میں سے ایک وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں ـیہ نہیں کہ پاکستان میں اسکول نہیں بلکہ یہاں اسکول بھی ہیں اور اساتذہ بھی ـاگر نہیں ہے توصرف ایمان نہیں ـباقی تو الحمداللہ سب کچھ ہی ہے ـآج سے تقریبا 20برس قبل ایک محارہ تھا کہ جو انسان ناکامی کا منہ دیکھتا ہے وہی استاد بن جاتا ـمگر آج کے اس جدید دور میں یہ محاورہ بالکل الٹ ہو چکا ہے کہ جس نے اچھی خاصی آمدنی کمانی ہے تو استاد لگ جائے کسی سرکاری اسکول میں ـان نام نہاد اساتذؤں کو درس و تدریس سے کسی قسم کی کوئی محبت نہیں اور نہ ہی اپنے ملک سے ـ انھیں محبت ہے تو صرفان پیسوں سے جو نوکری سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ملنی ہے۔
ایک صاحب میرے والد صاحب سے ملنے گھر تشریف لائے ـحال احوال دریافت کرنے کے بعد میرے والد صاحب بچوں کی تعلیم و نوکری کے بارے میں معلوم کرنے لگے ـوالد صاحب نے جب بتایا کہ بڑی بیٹی نے کچھ ماہ پہلے ہی گریجویشن کیا ہے تو فورا کہنے لگے کہ بچی کو بی ایڈ کروا دوـ آج کل بی ـایڈ والوں کی جلد ہی سرکاری اسکول میں نوکری لگ جاتی ہے ـایک مرتبہ ایک صاحبہ اپنی نادر سوچ کو ہم تک منتقل کرنے لگیں ـہم نے ان سے یہ کہہ دیا کہ ہم گاؤں کے ایک نجی اسکول میں پڑھانے کی خواہش رکھتے ہیں تو وہ محترمہ کہنے لگیں ـکہ اگر پڑھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو کسی سرکاری میں پڑھاؤ تا کہ زندگی بڑے عیش و آرام سے بسر ہو ارے ان نجی اداروں میں کیا خاک رکھا ہے ـارے میں تو خود اس چکر میں ہوں سرکاری اسکول میں نوکری لگ جائے ـ ایک مرتبہ گاؤں کے اسکول کی پرنسپل صاحبہ سے اتفاقا ملاقات ہو گئی تو باتوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا ـان سے جب یہ پوچھا کہ آپ کے اسکول میں کیا صرف اسی دیہات کے بچے زیر تعلیم ہیں تو انھوں نے بتایا کہ کہ نہیں آس پاس کے مختلف دیہاتوں کے بچے بھی زیر تعلیم ہیں۔
جب ان سے دوسرا سوال کیا کہ کیاآپ کے اسکول میں اس دیہات کہ تمام بچے آتے ہیں تو جواب ملا کہ نہیں ـجب ان سے اس بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے ہمیں بتایا کہ اس گاؤں میں بھی دو طبقات کے لوگ آباد ہیں ـ1کھاتے پیتے گھرانے اور 2ـکمی کمین/ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والےـیہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے بچوں سے مشقت کروانی ہوتی ہے تا کہ گھر میں چار پیسے آجائیں ـ ان کا خیال ہے کہ تعلیم ان کے ٹھنڈے چولہوں کو گرم نہیں کر سکتیـاب یہ ذمہ داری اساتذہ اور پڑھے لکھے طبقے کی بنتی ہے کہ ایسے لوگوں کی سوچ کو بدلا جائے ـیہ بچے اگر اپنے والدین کا بازو بنتے ہیں تو بے شک کام کریں لیکن ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی توجہ دیں۔
سب پہلے تو امام مسجد اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں میں شعور بیدار کرنے لئے آگے بڑھیں ـاور اساتذہ کو چاہیے کہ بغیر کسی انفرادی فائدے کے قوم کے مستقبل کے معماروں کے بارے میں سوچیں ـجس دن اساتذہ حقیقی معنوں میں درس و تدریس کے شعبے سے بغیر کسی صلے کے عشق کریں گے ـتو یقین جانئے کہ پھر پاکستان کو ترقی کرنے سیکوئی نہیں روک سکے گا ـاور آخر میں حکومت پاکستان سے التجا ہے کہ درس و تدریس کے شعبے میں سرکاری نوکریوں سے نوازنے کے بعد ترجیحی بنیادوں پر محکمہ تعلیم میں بھی مرد شماری کروائیں تا کہ معلوم ہوسکے کہ سرکاری اساتذہ کی تعداد ناخواندگی کی شرح کو کم کرنے کتنی آگے آگے ہے ـسال میں دو مرتبہ پاکستان میں اسکول جانے والے بچوں کی بھی مردم شماری ہونی چاہیئے اور ساتھ ساتھ اسکولوں کی بھی کہ آیا وہ اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا کر رہے ہیں بھی یا نہیں۔