تحریر : وقار احمد اعوان شنید ہے کہ وفاقی حکومت تمام صوبوں کے باہمی اشتراک سے آئندہ ملک بھر کے تمام پرائمری سکولوں میں بتدریج خواتین کی تعیناتی کا ارادہ رکھتی ہے۔ جس کا مقصد تعلیمی شرح کے اہداف کو جلد ازجلد پوراکرنا ہے اور جس سے غیر ملکی امداد بڑھنے کی توقع بھی ظاہر کی جا رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق مرحلہ وار تعیناتی سے خواتین تعلیمی شرح کے بڑھانے میں اپنا مثبت کردار اداکریں گی اوریوں تعلیم ”سب کے لئے” تو ساتھ ”مار نہیں پیار” جیسے جملوں کو عملی جامہ پہنانے میںخاطر خواہ حد تک مدد مل سکے گی،ہر چند کہ وفاقی حکومت کا مذکورہ فیصلہ خو ش آئند اور دیرپا بھی ثابت ہوگا مگر ان تمام تاریک پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالنا امر خاص ہوگا ،جن سے معاشرہ کے ایک خاص کردار کے ضائع ہونے کا خدشہ لاحق رہے گا۔جیسے پرائمری سکولوں میں خواتین اساتذہ کی تعیناتی سے ایک عرصہ سے غربت اور بے روزگاری کی چکی میںپسنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مزید ذہنی کوفت کا شکار نظرآئیںگے۔ایک سروے کے مطابق ملک بھر میںلاکھوں نوجوان پرائمری سکول سرٹیفیکیٹ کی ڈگری لئے بھرتی کے منتظر ہیں،کہ کب آسامیاں مشتہر ہوں اور بے چارے اپنے خاندان کا سہارا بن سکیں۔مگر جناب بے چار ے بنیں تو بنیں کیسے؟کیونکہ وفاقی حکومت نوجوان لڑکوں کی جگہ لڑکیوں کوبھرتی کرنے کی تدبیر کررہی ہے۔حالانکہ وفاقی حکومت کے علم میںہے کہ موجودہ حالات میں اس قسم کے اقدامات معاشرہ کو مزید بگاڑ نے کا موجب بن سکتے ہیں۔
جہاں ملک میں بے روزگاری پر قابو پانے کی کوشش کی جائے گی وہاں معاشرہ کے اہم کردار کو بے روزگاری کے منہ میںجان بوجھ کر دھکیل دیا جائے گا۔البتہ کوئی مضائقہ نہیں کہ پرائمری سکولوں میںخواتین اساتذہ کی تعیناتی تعلیمی شرح میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے لیکن یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے ملک میں ان تمام سرکاری سکولوں کی شرح فیصد اکھٹی کی جائیں جہاں خواتین اساتذہ پہلے سے ہی فریضہ انجام دے رہی ہیں۔بہرحال تعلیم ،صحت اور محنت کشوں کے لئے پالیسیوں میں صنف نازک کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کرکے پاکستان میںاپنے ہزاری ترقیاتی اہداف کے حصول کی جانب بامعنی پیش قدمی کرسکتاہے۔اور اتنی اہم بات یہ ہے کہ خواتین کی خودمختاری اور خواتین اورلڑکیوں پرسرمایہ کاری امن کے قیام،سماجی انصاف،معاشی ترقی نیز عدم مساوات میںکمی کے بنیادی محرک بن سکتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان ان مسائل سے عہدبرآ ہونے کے حوالے سے کافی پیش قدمی کرچکاہے۔تاہم اگر دیگر ممالک خصوصی جنوبی ایشیاء کے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو یہ بہت سست رفتاری سے آگے بڑھاہے۔مگر حالیہ ورلڈ اکنامک فورم رپورٹ ان باتوں کی غماز ہے کہ پاکستان میںصنف نازک کے لئے آگے بڑھنے کے کئی مواقع ہیں جن سے وہ ملکی ترقی میں اپنا مثبت کردار اداکرسکتی ہیں۔باوجود اس کے کہ پاکستان میںخواتین کی عدم شمولیت اورخواتین کی خودمختاری کی کمی کی مرکزی وجوہات بنیادی عدم مساوات ہے،جس میں خواتین اور لڑکیوں کی وسائل اور خدمات تک رسائی میں تفریق کرنے اور انہیں کنارے لگانے میںمعاشرہ اور روایات طاقت ور عوامل ثابت ہوسکتے ہیںخصوصاً غریب اور دیہاتی علاقوں میں۔حکومتی وسائل کی کمی،غربت کی فراوانی اور خواندگی کی کم تر سطح یہ سب اس حقیقت میں حصہ دار ہیں کہ بہت کم خواتین اپنے حقوق سے واقف ہیں۔حکومت پاکستان خواتین کی ترقی اور خودمختاری کے ٹھوس ایجنڈارکھتی ہے ،اس حوالے سے بڑی کوششوں میںمذکورہ کوشش شامل ہے۔جس کے دورس نتائج برآمد ہونگے تو ساتھ پرائمری لیول پر خواتین کی تعیناتی سے بچوںکی اچھی تربیت بھی دیکھنے کوملے گی۔اس کے علاوہ صوبائی حکومت خواتین کی جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی بارے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے جس سے شام کے اوقات میں صوبہ بھر کی خواتین کو کمپیوٹر کی تعلیم دی جائے گی۔
یقینا مذکورہ اقدامات خواتین کے ملکی ترقی میںحصہ ڈالنے کے لئے بامعنی ثابت ہوسکتے ہیں،جہاں ہماری خواتین جدیددورمیںکارہانے نمایاں انجام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں وہاں ان کی قائدانہ صلاحیتوںسے بھرپور استفادہ حاصل کرنا دراصل معاشرہ کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہے۔یوں ایک عرصہ سے خواتین میںپائی جانے والی بے چینی کا بھی خاطرخواہ حدتک ازالہ ہوسکے گا۔کیونکہ مشرق ہو یا مغرب، خواتین کا مقام وہاں کی معاشرتی اقدار اور روایات کے مطابق ہوتا ہے۔
ترقی یافتہ دور میں دونوں ہی طرح کے معاشروں میں خواتین کے روایتی کردار میں تبدیلی آئی ہے۔ خواتین اب اپنی روایتی ذمہ داریاں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا بڑھتا رجحان ہے۔ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کا شعور اب دنیا کے ان قدامت پسند معاشروں میں بھی اجاگر ہونے لگا ہے جہاں والدین لڑکی کی پیدائش سے ہی زر اور زیور جمع کرنے کی فکر میں گھلنا شروع ہو جاتے تھے کیونکہ انہیں اپنی بیٹی کو بیاہنے کا بندوبست کرنا اپنا اولین فریضہ لگتا تھا۔ جیسے جیسے لڑکیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے لگیں، ویسے ویسے والدین کے کندھوں پر سے یہ بوجھ کم ہونا شروع ہو گیا۔
ان تینوں معاشروں میں تعلیم تیزی سے عام ہوئی اور خواتین میں تعلیم اور اپنے حقوق کے حصول کا شعور بھی بیدار ہوا۔ صنعتی ترقی کے مثبت اثرات کے نتیجے میں خواتین روزگار کی منڈی میں بھی نظر آنے لگیں۔ اگرچہ ان ممالک کی اقتصادی ترقی میں بھی خواتین کا کردار اہم ہے تاہم دنیا کے دیگر ایسے معاشروں کی طرح، جہاں مردوں کی اجارہ داری ہے، جنوبی ایشیائی ملکوں میں بھی خواتین کے چند بنیادی حقوق کا تحفظ اب بھی قانونی دستاویزات میں تو موجود ہے تاہم اس پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہونے کے سبب عورتوں کی صورتحال نہایت دگرگوں ہے۔