پنجاب کے وزیر اعلی اور انکی ٹیم کو دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان افراد کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پنجاب کے عوام پر مسلط کیا گیا ہے جن کے اندر ویژن ہے اور نہ ہی کوئی صلاحیت اور انہیں ابھی تک اس بات کی بھی سمجھ نہیں آرہی کہ یہ لوگ واقعی پنجاب کے حکمران بن چکے ہیں اور رہ گئی بات بیوروکریسی کی انہیں نہ پہلے کسی کی پرواہ تھی اور نہ ہی اب ہے جو کرپشن اور چور بازاری کا سلسلہ پہلے جاری تھا اس کہیں زیادہ تیزی سے اب بھی جاری ہے لوٹ مار کے نئے نئے طریقوں سے ایسا محسوس ہورا ہے کہ ہر کوئی یہی سمجھ رہا ہے کہ جو مال اکٹھا ہو سکتا ہے کرلیا جائے بعد میں کیا ہوگا دیکھا جائیگا الیکشن سے پہلے کپتان نے جو وعدے کیے تھے ان میں سے ابھی تک کوئی ایک بھی پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں وزیروں کو علم ہی نہیں کہ انہوں نے سوالوں کے کیا جواب دینا ہیں حکومت کا دفاع کس طرح کرنا ہے اپوزیشن کی طرف سے کسی بھی سوال کا جواب مانگا جائے تو حکومتی اراکین ن لیگ کو پچھلے دس اور 35سالوں کا طعنہ دینا شروع کردیتے ہیں اور ایک بار تو خود سپیکر چوہدری پرویز الہی کو بھی یہ کہنا پڑا کہ آپ کو اب یقین کرلینا چاہیے کہ آپ لوگ حکومت میں ہوں حکمرانی کا سب سے پہلا ٹاسک تو یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اپنی ٹیم بنائی جائے۔لیکن موجودہ حکومت کے پاس ویژن کی کمی ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ بلند بانگ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہم دو سو افراد لے کر آرہے ہیں لیکن کہاں ہیں وہ دو سو افراداور قابل ٹیم مگر اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ غریب لوگوں جو ساری عمر ایک ایک پیسہ جمع کرکے حج پر جانے کی آس لیے پیسے جمع کرتے تھے ان پر پچھلی حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی ختم کردی گئی جسکے بعد حج اخراجات میں تقریبا ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا اضافہ ہوگیا مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے بجلی کا، گیس مہنگی اور ادویات مہنگی ہوچکی ہیں ہیں ڈالرکو پر لگے ہوئے ہیں پولیس ریفارمزجنکا الیکشن سے پہلے ہر تقریر میں ذکر ہوتا تھا کہیں بھی نظر نہیں آرہیں اسی محکمہ میں کرپشن کا معیار پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور انہیں کسی کا ڈر بھی نہیں رہا اسکے علاوہ باقی کے بھی تمام سرکاری محکموں میں اُسی طرح کی کرپشن ہے جو پہلے تھی بلکہ اس میں سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے رشوت کے بغیرکوئی کام نہیں ہوتا نوکر شاہی کسی کا کام کرکے راضی نہیں۔ فیاض الحسن چوہان جیسے وزیر اپنی بدزبانی کی وجہ سے میڈیا اور عوام میں اپنا وقار کھو چکے ہیں بلکہ سنا ہے کہ وہ آجکل لڑکیوں سے مساج کروانے میں مصروف ہیں اور میں جس جگہ انہوں نے رہائش رکھی تھی وہ بھی ن لیگ کے بہت بڑے سپورٹرز ہیں کھانے پینے والے ہیں اس لیے وزیر موصوف اگرخاموش ہی رہیں تو بہتر ہے ورنہ اُن کی ترجمانی تحریک انصاف کے اور خود انکے گلے بھی پڑ سکتی ہے۔
رہی بات عمران خان کی وہ اپنی پوری ایمانداری سے چاہتا ہے کہ ملک کی سمت درست کرکے اسے ترقی کی راہ پر گامزن کردیا جائے عمران خان پاکستانی معاشرئے میں ایک امید کا نشان ہیں۔ عمران خان کے ذاتی کردار پر بات کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر شیخ رشید کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کُشی کے لیے رکھا ہوا تھااور عورت کی حکمرانی کے خلاف طرح طرح کے فتوئے ن لیگ بے نظیر بھٹو کے خلاف شائع کرواتی پھر رہی تھی۔شیخ رشید جو ایک عوامی آدمی ہیں اِنھوں نے نواز شریف کی حمایت میں وہ زبان محترمہ بے نظیر کے خلاف استعمال کی کہ خد اکی پناہ۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوئے شائع کروانے والی ن لیگ مریم نواز کو اپنا لیڈر بنا چکی ہے جبکہ حکومت بھی اپنے موقف پر قائم نہیں رہتی ایک دن بیان کچھ ہوتا ہے تو دوسرے دن کچھ اور کبھی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا کبھی کہتے ہیں کہ جانا ہے۔
عمران خان کے اوپنر بیٹسمین جناب اسد عمر کی جانب سے جو رویہ سامنے آیا ہے وہ عوام الناس کے لیے بالعموم انتہائی عجیب ہے۔ موصوف اپوزیشن میں دئیے گئے اپنے ہی بیانوں کے خلاف اندھا دھند بیان داغ رہے ہیں اور تو اور اسحاق ڈار کے ویژن کو بھی درست قرار دئے چکے ہیں اور نواز شریف کی معاشی ٹیم کے لوگوں کو بھی اپنے گلے کا ہار بنائے ہوئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کی انتہائی بدقسمتی ہوگی کہ عمران خان اگر فیل ہو جاتے ہیں یقینی طور پر کرکٹ کھیلنے اور ملک چلانے میں بہت فرق ہے۔ لیکن عمران خان دیانتدار اور بہادر آدمی ہیں نمل کالج میانوالی اور شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر اور اِن ہر دو اداروں کا پاکستان کے عام لوگوں کو خدمات دینا اِس با ت کی دلالت ہے کہ عمران خان کے اندر قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ عمران خان کی نجی زندگی کو بہت زیادہ سکینڈلائز کیا گیا ہے۔
یہ ن لیگ کے پاس ایک بہت بڑا ہتھیار رہا ہے کہ وہ خود کو رائٹ ونگ کی جماعت کہتی رہی ہے اور اسلام پسندی کا لیبل لگا کر مخالف سیا ستدانوں پر اخلاقی الزمات لگاتی رہی ہے۔بے نظیر بھٹو کے معاملے میں بھی ن لیگ یہ کر چکی ہے عمران خان کے خلاف تو سب کچھ کل کی بات ہے۔ مگر ان سب باتوں کے بوجود اب اقتدار عمران خان کے پاس ہے اورعمران خان کی جانب سے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے ٹیم کا نہ ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔ کنٹینر کی سیاست کے بعد جب حکومت ملی ہے تو عمران خان کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوا ہے۔ اپوزیشن کرنا بڑا آسان کام ہے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں ہمیشہ سے مخالفین کی عزتوں کا جنازہ نکالا جاتا رہا ہے ا س ماحول میں تحریک انصاف نے بہت زبردست اپوزیشن کی ہے بلکہ فیاض الحسن چوہان جیسے لوگ ایسے کاموں کے لیے ہی رکھے جاتے ہیں جو وہ کر رہے ہیں مگر یہ سب باتیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے اچھی لگتی ہیں حکومت میں آکر اگر ایسا کیا جائے تو تو پھر مذاق بن جاتا ہے۔
اب جبکہ موجودہ حکومت کو آئے ہوے نصف سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے مگر سماجی و معاشی زندگیوں میں بہتری نظر نہیں آرہی حکومت کا امیج عوام کی نظر بھی بُری طرح متاثر ہورہا ہے۔ تبدیلی تبدیلی کا نعرہ لگانے والے شاید تبدیلی کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں بلکہ اب کہا جارہا ہے کہ ہمارے اوپر بہت زیادہ دباؤ ہے کہ زرادری اور نواز شریف کے معاملے میں ہاتھ ہولا رکھیں۔ ظاہری سے بات ہے کہ جنوں نے شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بنوایا ہے اب اگر مزید چھ ماہ اسی طرح گذر گئے تو پھر ثابت ہو جائیگا کہ عمران خان کی ٹیم نااہل ہے جوبطور اپوزیشن تو اچھی مگر حکومت میں آکر ٹھس ہوگئی ہے اس لیے وزیراعظم صاحب ہوشیار باش اپنی ٹیم کو بدلیں۔