وزیراعظم نے ایک اجلاس سے خطاب میں عندیہ دیا تھا کہ بیورو کریسی بے خوف ہوکر کام کرے، حکومت اس کے ساتھ ہے۔ اب یہ صورت حال ہے، وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ بیوروکریسی کو نئی حکومت کے ایجنڈے پر چلنا ہوگا، نہیں تو انہیں گھر چلے جانا چاہیے۔ گزشتہ دنوں حکومت اور بیورو کریسی کا ٹکرائو سامنے آیا۔ آئی جی اسلام آباد کی تبدیلی کے لیے وزیراعظم کی جانب سے زبانی احکامات پر عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ انہوں نے جن تحفظات کا اظہار کیا وہ بیورو کریسی سے متعلق تھے۔ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا، کیا وزیراعظم کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے مذکورہ ازخود نوٹس میں ریمارکس دیے تھے کہ دھونس اور ڈکٹیشن نہیں چلے گی۔ اب سمجھ نہیں آرہا کہ معاملہ تو کچھ اور تھا۔ وزیر اطلاعات کے مخاطب کوئی اور تھے، درمیان میں بیوروکریسی میں ایسا کون طاقت ور ہے جو ریاستی رِٹ چیلنج کررہا تھا کہ انہیں وزیراعظم، وزیراعلیٰ کے بہ حیثیت چیف ایگزیکٹو اختیارات یاد دلانے کی ضرورت پیش آئی۔ سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، پاک پتن کے ڈی پی او کی معطلی، دوسری جانب ٹاسک فورس کے لیے خان کے پسندیدہ سابق آئی جی خیبر پختونخوا ناصر درانی کے استعفے نے اداروں میں سیاسی مداخلت کی ہانڈی بیچ چوراہے پر پھوڑ ڈالی۔ آئی جی پنجاب طاہر خان و امجد سلیمی کی تعیناتی پر الیکشن کمیشن اور وفاق آمنے سامنے آئے۔ پھر آئی جی پولیس اسلام آباد کی سیاسی مداخلت کے نتیجے میں تبدیلی پر عدالت عظمیٰ کے نوٹس اور سخت ریمارکس نے موجودہ سیاسی صورت حال میں ارتعاش کی کیفیت پیدا کردی اور اداروں کے ساتھ تصادم کی بازگشت دوبارہ پیدا ہوئی۔ چیف جسٹس کے ریمارکس تھے کہ ”کیا یہ ہے نیا پاکستان”… موجودہ حکومت کے ابتدائی 100 روزہ منصوبے کے شروعاتی اقدامات پر سرسری نظر ڈالیں تو تمام اعلانات و دعوے فی الوقت ناکام و کچھ پائپ لائن میں دِکھائی دیتے ہیں۔ اہم دعویٰ یہ تھا کہ بیورو کریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے گا، لیکن اکھاڑ پچھاڑ کا عمل زوروں پر رہا، جس کا واضح مطلب کہ حکومت اپنی پسندیدہ بیورو کریٹ ٹیم بنارہی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کے دعوے ہنوز حوصلہ افزا نہیں اور حکومت بار بار مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔
کراچی میں قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈائون کا دعویٰ بھی ابھی تک معلق ہے۔ کراچی میں قبضہ مافیاز کے خلاف کس طرح اور کب کریک ڈائون ہوگا، یہ ابھی تک نظر نہیں آیا، تاہم سپریم کورٹ نے میئر کراچی کو احکامات دیے کہ وہ تجاوزات کا خاتمہ کریں، کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے صدر اور ایمپریس مارکیٹ کو ماڈل ایریا بنانے کا ٹاسک دیا اور 15دنوں میں تجاوزات ختم کرنے کے احکامات جاری کیے، لیکن صوبائی حکومت کے ساتھ وفاق نے بڑے بڑے قبضہ مافیاز کے خلاف کیا اسٹرٹیجی بنانے کی کوشش کی، ابھی تک یہ دعویٰ بھی 100روزہ منصوبے میں ابتدائی اقدامات کا منتظر ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ وزیراعظم کو بنی گالہ اراضی کیس کے سلسلے میں سب سے پہلے ریگولرائزیشن فیس جمع کرانے کا حکم دیا گیا، جس کے نتیجے سے ہم سب واقف ہیں۔ اعظم سواتی سمیت کئی وزراء و اراکین اسمبلی کی جانب سے سرکاری املاک پر قبضے کی رپورٹس بھی میڈیا کی زینت بن چکی ہیں۔ بجلی، گیس کی قیمت کرنے کا ایک اور دعویٰ مجوزہ100دنوں کے ابتدائی لائحہ عمل میں کیا گیا تھا، اس کا حشر پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوںمیں کمی کے بجائے ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔
خارجہ پالیسی میں اصلاحات کے حوالے سے ابھی تک پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح نہیں ہوسکے۔ خصوصاً حکومت کو ملنے والی سعودی امداد کے بعد یمن جنگ میں ”ثالث” بننے اور غیر مشروط امداد ملنے کے بیانیے نے کافی شکوک پیدا کردیے ہیں۔ گو وزیراعظم اور حکومتی وزرا واضح کہہ رہے ہیں کہ امداد بغیر کسی شرط کے ملی ہے، لیکن عمومی طور پر اسے اپوزیشن سمیت عوام بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں ‘ریاستی’ بیانیہ اور ٹھوس وجوہ نہیں بتائیں۔ قرض ملنے پر بڑی کامیابی اور خوشی کا اظہار قوم سے خطاب کے دوران کیا، لیکن یمن میں ثالث کس طرح بنیں گے، یہ ابہام موجود ہے۔ سعودی عرب اور یمن کے درمیان 1800 کلومیٹر طویل سرحد پر جنگ سے مسلم اکثریتی ممالک مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان کی گزشتہ پارلیمنٹ یمن جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی باقاعدہ قرارداد منظور کرچکی ہے، لیکن وزیراعظم نے سعودی عرب کے دوسرے دورے میں ثالث بننے کا اعلان کیا۔
50لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے ابتدائی طور پر ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کام شروع ہوچکا ہے۔ لیکن ابتدائی خدوخال جو اَب تک سامنے آئے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی ہے کہ جس خاندان کی کل آمدنی ہی 20/30ہزار روپے ہو، وہ ایڈوانس اور ماہانہ قسط 5/10 ہزار کہاں سے دے گا۔ حکومت نے مزدور کی کم از کم اجرت14 ہزار ماہانہ مقرر کی ہے۔ ایک گھرانے میں اگر تین افراد کام کرتے ہوں تو کم ازکم اجرت کے پیمانے کے تحت 42ہزار روپے بنتے ہیں۔ اس طرح ایک خاندان میں تین کمانے والے تو دس کھانے والے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں 6کروڑ افراد سطح غربت سے بھی نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ تو حکومت کے بجائے نجی شعبے کو نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم دینے سے غریب کے بجائے کون زیادہ مستفید ہوگا، یہ پانچ برس میں پچاس لاکھ گھر بنانے سے زیادہ غور طلب معاملہ ہے۔
عمران خان نے 100دنوں کے لائحہ عمل میں عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ دعویٰ بھی ہوا ہوچکا ہے، کیونکہ ٹیکس کا بوجھ کم ہونے کے بجائے جس تیزی سے بڑھا اور مہنگائی اور ڈالر نے اٹھان لی اور عوام کو ریلیف نہیں مل سکا، اس پر قوم کو مایوسی ہوئی۔ عمرا ن خان نے 4 نئے سیاحتی مقامات کا اعلان کرنا تھا۔ فی الوقت چترال میں سینئر صوبائی وزیر محمد عاطف خان نے نئے سیاحتی مقامات کی تلاش کا عندیہ ضرور دیا ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں کا کیا ہوگا تو اسکے خدوخال اس طرح سامنے آئے کہ 50لاکھ گھر بنیں گے تو لاکھوں کروڑوں نوکریاں پیدا ہوجائیں گی۔ نئی صنعتیں وجود میں آئیں گی۔ سرمایہ کار ی ہوگی، لیکن مخالفین کا کہنا ہے کہ ”نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔”
اب رہا معاملہ صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے حوالے سے ابتدائی لائحہ عمل سامنے آنے کا، تو اس کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ابھی تک کوئی عملی تحریک بھی سامنے نہیں آسکی۔ پاکستان کو مدینہ طرز کی فلاحی ریاست بنانے کا سب سے بڑا دعویٰ کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے لیے انہیں اداروںکو میرٹ پر لانا ہوگا۔ جو ان کے منشور کا حصہ ہے۔ جب حکومتی ادارے میرٹ کے مطابق کام کرنے لگیں تو فلاحی مملکت کا خواب ازخود پورا ہوسکتا ہے۔ لیکن یہاں تو صرف فون نہ اٹھانے پر آئی جی کو ہی عہدے سے ہٹادیا جاتا ہے اور حکومتی وزراء کا یہ بیانیہ سامنے آتا ہے کہ چیف ایگزیکٹو سب کچھ کرسکتا ہے۔ پھر اگر ان کے استدلال کو تسلیم کرلیں تو ہم آمریت کو غلط کیوں سمجھتے ہیں۔ آئین کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ کرم خوردہ قانون پر مرہم کہاں رکھیں؟