اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور چئیرمین نیب جاوید اقبال نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست کی مخالفت کی صورت میں ان کی صحت کی ذمہ داری کا حلفیہ بیان دیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے دورکنی بنچ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست کی جلد سماعت کے لیے شہباز شریف کی درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل نے نواز شریف کی صحت سے متعلق نئی رپورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی کاپی پیش کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف کو مائنر (ہلکا) ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر طبیعت انتہائی تشویشناک ہے تو بتائیں، کیا فریقین نے لاہور میں ضمانت کی مخالفت کی؟۔ وکیل نے بتایا کہ زیادہ مخالفت نہیں کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کو اختیار ہے وہ سزا معطل کر سکتی ہے، ڈویژن بنچ نے اس معاملے کو منگل کے لیے رکھا ہے، فریقین اور پنجاب حکومت کو بلاکر پوچھ لیتے ہیں، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں بھی تحریر ہے کہ نواز شریف کی طبیعت تشویشناک ہے، ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں نہیں آنے چاہیے۔
عدالت نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور چئیرمین نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج ہی کوئی نمائندہ مقرر کر کے چار بجے عدالت بھجوائیں، متعلقہ حکام اپنے نمائندے منتخب کرکے رپورٹ پیش کریں۔
ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرارآفس نےبتایاٹی وی چینلزپرڈیل سےمتعلق خبریں نشرکی گئیں جس پر متعلقہ چینلزاوراینکرزکوتوہین عدالت کےنوٹس جاری کرکے آج شام چار بجے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
بعدازاں کچھ دیر بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست کی سماعت کی۔ رجسٹرار آفس نے بتایا کہ تمام فریقین بشمول چیف سیکرٹری پنجاب، اٹارنی جنرل آفس اور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل اور 5 اینکرپرسنز کو فون کرکے عدالتی حکم سے آگاہ کردیا گیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور چئیرمین نیب کے نمائندگان عدالت کو بتائیں کہ وہ نواز شریف کی سزا معطلی کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟ مخالفت کی صورت میں حلفیہ بیان دیں کہ اگر نواز شریف کی صحت مزید خراب ہوئی تو بیان حلفی دینے والے ذمہ دار ہوں گے۔