اسلام آباد (جیوڈیسک) پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ معاملہ استثنیٰ کا نہیں بیانات میں تضاد کا ہے، جدہ فیکٹری کی ملکیت پر باپ اور بیٹے نےالگ الگ بات کی، والد سچا ہے یا بیٹا۔ وزیر اعظم نے اسمبلی میں کرپشن کے الزامات کا جواب دیا، پارلیمنٹ کی کارروائی کو شواہد بنانے کے عدالتی حوالے موجود ہیں۔
اسمبلی میں تقریر پر وزیراعظم کو استثنیٰ حاصل ہے ۔ نواز شریف کے وکیل کا مسلسل دوسرے روز اصرار ، عدالت کی جانب سے معاملہ استثنیٰ کے بجائے بیانات میں تضاد کا قرار دے دیا گیا۔
باپ اور بیٹے میں سے کون سچا ہے ؟جسٹس آصف سعید کھوسہ کا وکیل سے استفسار ، عدالت نے ویلتھ ٹیکس کی عدم ادائیگی کو ماضی کا حصہ قرار دیدیا۔
وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے وزیراعظم کو آرٹیکل 66 کے تحت استثنیٰ پر دلائل دوبارہ شروع کئے تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ نیوزی لینڈ کی عدالت کا فیصلہ موجود ہے کہ پارلیمنٹ میں بحث کو بطور شواہد استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا آرٹیکل 66 کا استحقاق انفرادی نہیں اجتماعی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا دوسرے فریق کا مؤقف ہے کہ دوسری پارٹی کا موقف ہے کہ وزیر اعظم کی تقاریر میں تضاد ہے، وزیر اعظم اور ان کے بچوں کا موقف بھی مختلف ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے انٹرویو میں کہا کہ جدہ میں انہوں نے فیکٹری لگائی، والد اور بیٹے نے انٹرویو میں الگ الگ بات کی، والد سچا ہے یا بیٹا۔ اس پر وزیراعظؐم کے وکیل نے کہا بیٹے یا باپ میں سے کسی ایک کا سچ ثابت کرنا ہو تو وزیر اعظم کو فارغ نہیں کیا جا سکتا۔