اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نااہلی کیس کا 12 صفحات پر مشتمل تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا، وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور آئی ایس پی آر کے بیانات میں کوئی عدم مطابقت نہیں، بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ کیسز کی کوئی ٹھوس وجوہات نہیں جس پر سماعت آگے بڑھائی جائے۔
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں وزیر اعظم کا ذکر نہیں کیا گیا تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے سہولت کار کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی تقاریر یہ بتاتی ہیں کہ قومی اسمبلی کے فلور پر انہوں نے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ کے بیان کا حوالہ دیا۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں وزیر داخلہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کی کہ آرمی کو ثالثی کا کردار نہیں سونپا گیا، وزیر داخلہ نے اپنے بیان میں آرمی کو سہولت کار کا کردار دینے کی بات کی تھی۔ ان تینوں کے بیان ایک دوسرے سے عدم مطابقت نہیں رکھتے۔ فیصلے میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی فیصلے میں دو صفحوں کا اضافی نوٹ تحریر کیا جس میں کہا گیا کہ سماعت کے دوران بیانات کے اصل متن ہمارے سامنے لائے گئے۔
بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ کیسز کی کوئی ٹھوس وجوہات نہیں جس پر سماعت آگے بڑھائی جائے، آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی تشریح کے حوالے سے اٹھائے گئے سوال اہمیت کے حامل ہیں ۔ آرٹیکل 62 اور 63 سے متعلق سوالات کو کسی اور دوسرے مقدمے میں ایڈریس کیا جا سکتا ہے، آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 سے واضح ہے کہ کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو عدالتی سزا کے بعد ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔
آٹھارویں ترمیم سے قبل کسی رکن پارلیمنٹ کو رکنیت سے ہٹانے کے لیے عدالتی فیصلے کی ضرورت نہ تھی ۔ اسی بنیاد پر کسی ممبر کی نااہلی کے سوال کو عدالتی نہیں سیاسی نوعیت کا سمجھا جاتا تھا۔
ہائی کورٹ کا معاملے کو نہ سننا درست فیصلہ نہیں تھا۔ یہ ضروری ہے کہ آئینی الفاظ صادق اور امین کی تشریح کی جائے، دیانت دار اور امین کے لفظ کی تشریح ہونے سے انتخابی امیدواروں اور عدالتوں کی رہنمائی ہو سکتی ہے۔
ان دونوں الفاظ کی تشریح ہونے سے نااہلی یا اہلیت کے یکساں معیار طے ہو سکتے ہیں، اگر تشریح نہیں کی جاتی تو ممکن ہے کہ ریٹرننگ آفیسر اور الیکشن ٹریبونل اپنی سوچ کے مطابق فیصلے دیں گے۔