تحریر : عابد علی یوسف زئی 2013ء الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو شروع ہی سے ٹف ٹائم دینے کے لیے مخالف جماعتیں میدان میں کھود پڑیں۔ انتخابات سے پہلے ہی وطن عزیز کو ڈھیر ساری چیلنجز کا سامنا تھا۔ بجلی بحران شدید تر ہو گیا تھا۔ کارخانے رک گئے تھے۔ کاروبار ویران ہوگئے تھے۔ بے روزگاری کا دور دورا تھا۔ پٹرول اور ڈالر میں زورو کا مقابلہ تھا۔ دونوں سینچریاں بنا چکے تھے۔ الیکشن کمپین میں ووٹرز کو یہی لالچ دی جانے لگی۔ اور یوں عام انتخابات منعقد ہوکر نتائج سامنے آگئے۔ ایک مرتبہ پھر پاکستان مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا۔ میاں محمد نواز شریف کو اسمبلی نے تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب کر لیا۔
ابھی حکومت نے پوری طرح ہوش نہیں سنبھالا تھا کہ خیبر پختونخواہ میں مخلوط حکومت بنانے والی نئی ابھرتی ہوئی جماعت نے حکمران جماعت پر دھاندلی کا الزام لگا کر ملک گیر احتجاجی مہم کا آغاز کر دیا۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں کو بند کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور پھر آزادی کے مہینے میں اسلام آباد کو طویل عرصے تک بند کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دھاندلی کے خلاف دھر میں پی ٹی آئی کو کئی جماعتوں کا اعتماد حاصل رہا۔ دھرنا شروع ہوا۔ ایک دن۔ دودن۔ ہفتہ۔ مہینہ۔ دو ماہ۔ تین ماہ۔ چار ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اور پھر خیبر پختونخواہ کے معصوم کلیوں کے خون نے دھرنے کا خاتمہ کیا۔
آگ ابھی بجھی نہیں تھی۔ ابھی تو گیم شروع ہوا تھا۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں جلسوں کا آغاز ہوا۔ مختلف حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔ بہت سارے حلقوں کو کھولا گیا جبکہ کچھ حلقوں کو بغیر کھولے ہی منتخب نمائندہ نا اہل ہوگیا۔ پی ٹی آئی کا یہ پتہ بھی نہیں چلا۔ ن لیگ نے سڑکوں کا جال بچھانا شروع کیا۔ چھوٹے چھوٹے بجلی گھروں کو بنانے کا آغاز کیا جبکہ لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کا ڈیڈ لائن دیا۔ ایک طرف مارکیٹ سے ڈالر کا اکٹھا کیا تو دوسری طرف تھری جی اور فور جی لائسنسوں کی نیلامی کی گئی۔ یوں ڈالر کو 110 روپے سے 96 پر لانے میں کامیاب ہوگئے۔ ادھر بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے باعث پیٹرولیم مصنوعات 120 روپے کے تاریخی بلندی سے بہت تیزی سے گرنے لگے اور پہنچتے پہنچتے تقریبا آدھی قیمت پر آگئے۔
اب ن لیگ نے ان چیزوں کا ایڈوانٹیج لیا اور ضمنی انتخابات میں اکثر حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے ہار نہیں مانی اور ن لیگ حکومت کے خلاف ڈٹے رہے۔ قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوئی اور پانامہ سکینڈل منظر عام پر آگیا۔ آف شور کمپنیوں میں نواز شریف خاندان سمیت نامزد ہوگئے۔ جماعت اسلامی نے موقع کو غنیمت جان کر عوامی وزیر اعظم کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر کرلیا۔ اب معاملہ یکسر الٹ گیا۔ سپریم کورٹ بنچ میں فیصلے پر اتفاق رائے قائم نہ ہوسکی۔ نواز شریف اینڈ فیملی کے خلاف جے آئی ٹی بنائی گئی۔ بیانات کو ریکارڈ کر لیا گیا۔ اور طویل عرصے کے بعد بلاخر تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو تاحیات نا اہل کر دیا گیا ۔ ساتھ ریمارکس دئے گئے کہ وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے۔
معاملے کو اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو ایک طرف کرپشن کا ایک باب تو بند ہو گیا لیکن دوسری طرف ملک و قوم کو کیا فائدہ ملا؟ اسمبلی میں بھاری اکژیت کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ن لیگ کو ہی اقتدار مل گیا اور شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم پاکستان منتخب ہو گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا چہرے بدلنے سے عوام کی تقدیر بدل جائے گی؟ کیا ملک و قوم کا لوٹا ہوا سرمایہ واپس آسکے گا؟ کیا پانامہ کیس صرف تنہا نواز شریف کے نا اہلی کے ساتھ دب جائے گا یا پھر ملوث سینکڑوں لوگوں کے گرد بھی گیرہ تنگ کیا جائے گا؟
ایک طرف وزیر اعظم نا اہل ہوگیا تو دوسری طرف منتخب اسمبلیوں کی آئینی مدت ختم ہو رہی ہے۔ سیاسی میدان میں ہل چل مچ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی بھی میدان میںآگئی۔ نواز شریف نے بھی ملک گیر ہڑتالوں کا آغاز کیا۔ عمران خان تو شروع سے میدان میں ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی آرٹیکل 62, 63 کے دفاع کے خاطر ن لیگ کو واضح موقف دیا ہے۔ علامہ طاہر القادری صاحب بھی تشریف لا چکے ہیں۔ نئے انتخابات کے لیے ابھی سے تیاریاں شروع ہو چکی ہے۔ عوام ایک مرتبہ پھر مایوسی کے بعد امید کی کرن کے منتظر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آرٹیکل 62, 63کے تحت صادق اور امین کی شرط کیا اگلے انتخابات میں لاگو ہوگا؟ اس شرط کے تحت کون سے سیاست دان ایسے ہیں جو صادق اور امین کے مصداق ہیں؟ کیا اگلا وزیر اعظم اپنے سیٹ اپ سمیت صادق اور امین ہو گا؟