ایک مولانا اپنے گھر کے صحن میں کھانا تناول فرما رہے تھے کہ اچانک ایک شرارتی کوّا اُن کے ہاتھ سے ”بوٹی” چھین کر لے گیا۔ مولانا نے طیش میں آ کر کوے کو کہا ”اوئے! میری بوٹی واپس کر دے نہیں تومیں اعلان کر دوںگا کہ کوّا حلال ہے”۔ ہمارے مولانا پلس سے کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی چھِنی تو اُن کا ”مَتھا” 70 سالہ ”نوجوان” وزیرِاعظم سے لگ گیا۔ اب خیر سے مولاناپی ڈی ایم کے سربراہ بھی ہیںجہاں مقررین کی زبانیں آگ اُگلتی رہتی ہیں اور مولانا پلس خانِ اعظم کو یہودیوں کا ایجنٹ اور کشمیر فروش قرار دے رہے ہیں۔ حکمرانوں میں اتنی بوکھلاہٹ کہ ایٹمی پاکستان کا وزیرِاعظم مُنہ پر ہاتھ پھیر کر کہتاہے ”نِبڑ لواںگا”۔ایازصادق کہتے ہیں کہ وزیرِاعظم کی جھلاہٹ اور بوکھلاہٹ ظاہر کرتی ہے ہے اُن کے سَتّو ”مُک” چکے۔ ابھی تو صرف 2 جلسے ہوئے ہیںاور سارے وزیرشزیربھی بوکھلاہٹوں کی ”گھُمن گھیری” کا شکار۔ آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا۔
اگر وزیرِاعظم مصلحت سے کام لیتے تو مولانا پلس کو کشمیر کمیٹی دے کر ”نُکرے” لگا کر چین سے حکومت کر سکتے تھے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ وہ مصلحت سے کام نہیں لیتے، جسے وہ اپنا چوکیدار تک رکھنے کو تیار نہ تھے، اُسے ریلوے کی وزارت سونپ دی جو اُن کی نظروں میں چورڈاکو تھا، اُسے پنجاب کی سپیکرشپ دے دی۔ جس ایم کیوایم کے خلاف وہ ثبوتوں کے بریف کیس لیے پھرتے تھے، اُسے اپنا قریب ترین اتحادی بنا لیا۔ ایسے میں مولانا پلس کی گنجائش تو بہرحال نکلتی تھی۔ ویسے بھی ہمارے وزیرِاعظم ”ماہرِ یوٹرنیات” ہیں۔ اُنہوں نے فرمایا تھا ”آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے خودکشی” لیکن وہ آئی ایم ایف کے پاس گئے (مولانا عبدالغفور حیدری کہتے ہیں کہ عمران خاں کم ازکم خودکشی والا وعدہ تو پورا کردیں)۔وزیرِاعظم نے فرمایا کہ بجلی، گیس، پٹرول اور ڈالر مہنگے نہیں ہوںگے لیکن یہ سب رفعتوں کو چھوتے ہوئے۔ فرمایا کہ وزیرِاعظم ہاؤس کو لائبریری اور گورنرہاؤسز کو یونیورسٹیوں میں بدل دیں گے لیکن وہ اپنی جگہ قائم دائم۔ کہا کابینہ مختصرترین ہوگی لیکن تاریخِ پاکستان کی سب سے بڑی کابینہ۔ یہ بھی فرمایا کہ بیرونِ ملک دورے نہیں کریں گے، پروٹوکول نہیں لیںگے، سائیکل پر دفتر جائیںگے، کمرشل فلائیٹس سے سفر کریںگے لیکن تاحال عمل درآمد مفقود۔ ایک کروڑ نوکریوں، پچاس لاکھ گھروں اور سو دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے پر نہ پہلے کسی نے اعتبار کیا اور نہ اب کر رہاہے لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے بیچنے پر تُل جائیںگے۔ باربار کہا گیا کہ پی آئی اے کا روزویلٹ ہوٹل فروخت نہیں کریںگے لیکن پرائیوٹائز کمشن میں جو نِجکاری کی فہرست جاری کی، اُس میں روزویلٹ کا نام بھی شامل ہے۔
ہم نیویارک کے مہنگے ترین علاقے ”مین ہٹن” کے اِس مہنگے ترین ہوٹل کو دیکھ چکے ہیں۔ 19 منزلہ یہ عمارت پاکستان کی عظمتوں کی علامت ہے لیکن حیرت ہے کہ اب اِسے 30 اکتوبر سے بند کیا جا رہاہے حالانکہ اِس ہوٹل نے پچھلے سال ہی 28 ملین ڈالر منافع کمایا۔ شنید ہے کہ پی ٹی آئی میں شامل کچھ لوگ ڈیڑھ ارب کی مالیت کے اِس ہوٹل کو ڈکارنا چاہتے ہیں۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ اب نیب اِس معاملے کی تحقیقات کرے گی، گویا ”مٹی پاؤ”۔ ہم کہہ رہے تھے کہ اگر مولاناپلس کو ”ایڈجسٹ” کر لیاجاتا تو حکومت ”اندرکھاتے” جو چاہے کر سکتی تھی کیونکہ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کی ہمت نیب کی وجہ سے دَم توڑ چکی تھی۔ اب مولانا طاہر اشرفی کو مذہبی امور کا مشیر بناؤ یا کسی اور کو ”ہُن گَل وَدھ گئی اے مختاریا”۔
ہمیں ”کھُلے ڈُلے” ندیم افضل چَن اِسی لیے پسند ہیں کہ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں تھے تب بھی کھُل کر بات کرتے تھے اور اب تحریکِ انصاف میں بھی اُن کا انداز وہی ہے۔ گزشتہ روز حامدمیر کے پروگرام میں اُنہوں نے کہا کہ چینی سکینڈل بیوروکریسی کا کیا دھراہے تو سوال ہوا کہ پھر بیوروکریسی کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا؟۔ چَن کاجواب آیا ”ہم کمزورہیں”۔ پھر کہا کہ اشرافیہ ملک پر مسلط ہے اور اگر اِس کا بندوبست نہ کیاگیا تو لوگوں کے ہاتھ میں ”پرچی کی جگہ برچھی ہوگی”۔ سوال ہوا کہ حکومت اِس پر کنٹرول کیوں نہیں کرتی؟۔ جواب وہی ”ہم کمزور ہیں” مگر حکومتی وزیروں مشیروں کی بڑھکیںبرقرار۔ شبلی فراز کہتاہے کہ سارے بنارسی ٹھگ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ 15 جنوری تک نوازشریف جیل میں ہوگا۔ فیاض چوہان کہتاہے ”مِکس اچار پارٹی کی آشا بھاشا اور تماشا سارا پاکستان جان چکا”۔ پاکستان تو واقعی جان چکا مگر فیاض چوہان جیسے ابھی تک بے خبر۔ اُس نے پی ڈی ایم کو ”مِکس اچار پارٹی” کہا تو ہماری بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی کیونکہ ”لو وہ بھی کہہ رہے ہیں یہ بے ننگ ونام ہے”۔
پہلی بات تو یہ کہ پی ڈی ایم کسی پارٹی کا نام نہیں، اتحاد ہے۔ اِس لحاظ سے تحریکِ انصاف کو البتہ مکس اچار پارٹی کہا جا سکتاہے کیونکہ فیاض چوہان سمیت 70 فیصد سے زائد افراد دوسری سیاسی جماعتوں سے ہجرت کرکے تحریکِ انصاف میں ”وارد” ہوئے ہیں، دوسری بات یہ کہ موجودہ حکومت کو اگر ”کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا” کہیںتو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ کئی سیاسی پارٹیوں کا ملغوبہ ہے۔ اِسے ہم ”چوں چوں کا مربہ” بھی کہہ سکتے ہیں جس میں ”اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ”۔ تیسری اور آخری بات یہ کہ فیض چوہان صاحب! ”پہلے تولو پھر بولو”۔
کئی سال پہلے رات گئے ٹی وی پر قابلِ اعتراض فحش پروگرام نشر ہوا کرتے تھے۔ صبح اُٹھ کر سارے مولوی ”حسبِ توفیق” اِن پروگراموں پر لعن طعن کیا کرتے تھے۔ اِس لعن طعن کو سُن کر کئی ”شرفا” اِن پروگراموں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ساری رات گزار دیتے ۔ یہی حال اب میاں نوازشریف کی 16 اکتوبر کی تقریر کا ہے جسے میڈیا پر نشر ہونے سے روک دیا گیا لیکن خانِ اعظم نے نہ صرف چوری چوری پوری تقریر سُن لی بلکہ اُس پر بھرپور رَدِعمل بھی دیا۔اب سارا پاکستان سوشل میڈیا پر میاں نواز شریف کی وہ تقریر ڈھونڈ رہا ہے ۔ اگر میاں نواز شریف کی تقریر پر پابندی نہ لگائی گئی ہوتی تو شاید اُس تقریر کی اثرپذیری کئی گنا کم ہوتی۔ اب وزیرِاعظم نے فرمایاکہ حکومتِ برطانیہ کو میاں نوازشریف کو ”ڈی پورٹ” کرنے کا کہا جائے گا اور اگر ضرورت پڑی تو وہ خود برطانیہ جا کر برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن سے بات کریںگے۔ عرض ہے کہ بورس جانسن پاکستان نہیں، برطانیہ کا وزیرِاعظم ہے جہاں آئین وقانون کے سامنے وزیرِاعظم کی کوئی حیثیت نہیں۔اِس لیے احمقوں کی جنت میں بسنے والوں کے نزدیک تو شاید وزیرِاعظم کا یہ بیان خوش آئند ہوگا، ہمارے لیے نہیں۔
پسِ نوشت:۔ صدارتی ریفرنس کا فیصلہ آچکا جس میں لکھا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس غیرآئینی، صدر صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں ناکام، جس پیمانے پر قانون سے انحراف ہوا اُسے بَدنیتی کہا جا سکتاہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ قاضی فائزعیسیٰ اور اُن کی اہلیہ کے انکم ٹیکس ریٹرن کی خفیہ معلومات دینے پر ایف بی آر کے سابق چیئرمین، متعلقہ انکم ٹیکس آفیسر، وزیرِقانون فروغ نسیم اور اے آر یو کے چیئرمین شہزاد اکبر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ہم سمجھتے ہیں کہ صرف اِن اصحاب کے خلاف ہی نہیں بلکہ صدرِپاکستان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے جنہوں نے پڑھے بغیر بَدنیتی پر مبنی یہ ریفرنس دائر کیا۔