تحریر : ساحل منیر کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے تہوارنہ صرف عقائد کی بنا پر انکے لئے روحانی تسکین اور یکجہتی کا ذریعہ ہوتے ہیں بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی کے تناظر میںمحبت، رواداری اور باہمی میل ملاپ کا بھی خوبصورت اظہار ہیں جس سے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان سماجی رشتے فروغ پاتے ہیں۔ان کی بدولت ہی انسانوں کو مل جل کر رہنے اورایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے ہوئے ساتھ چلنے کا موقع ملتا ہے۔
ان مذہبی تہواروں پر مختلف العقائد لوگوں کی طرف سے ایک دوسرے کی خوشیوں میں شامل ہونے سے سماجی بندھن مزیدمضبوط ہوتے ہیں اور اس گلوبل ویلیج میں امن و سلامتی کا محبت پرور کلچر فروغ پاتا ہے۔لہذا ہمیں ان مواقع پر اپنے ارد گرد بسنے والے ان تمام لوگوں کو اپنی محبت اور رواداری کا بھر پوراعتماد دلانا چاہیے جو ہمارے ہم مسلک نہ سہی ہم وطن تو ہیں۔یہ طرزِ عمل کسی طبقے پر احسان مندی نہیں بلکہ اعلیٰ و ارفع انسانی اقدار کا خاصہ ہے جوصحتمندانہ معاشرتی روایات کی تشکیل پذیری کرتا ہے۔
کسی ملک میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں کے مذہبی تہواران کے نزدیک اس لحاظ سے بھی دوچند اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان مواقع پر انہیں کھل کر اپنے رسم و رواج کے اظہار کا مشترکہ پلیٹ فارم میسر آتا ہے۔ ایسے میں جب ریاست کی طرف سے ان کے لئے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے توان میں تحفظ اور اعتماد کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے وطنِ عزیز پاکستان کی ہندو برادری کے مذہبی تہوار ہولی کے موقع پر وزیرِ اعظم پاکستان کی طرف سے مبارک باد کا پیغام یقینناً ایک حوصلہ افزاء امر ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہولی کا تہوارموسم کی تبدیلی اور بہار کی آمد کا اعلان ہے۔اس تہوار میں امید کا پیغام ہے وہ امید جو ہمیںایک بہتر مستقبل کی خبر دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہولی اس بات کی نوید ہے کہ موسم سرما بہار میں بدلتا ہے۔اسی طرح معاشروں کے حالات بھی تبدیل ہوتے ہیں۔اس موقع پر انہوں نے بجا فرمایا ہے کہ عوام کو فسادیوں کے ہاتھوں خطرات کا سامنا کرنا پڑاجس سے پاکستان کی اقلیتیں بھی متاثر ہوئیں۔ہندو برادری کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہ کیا جائے اور سب کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہو۔وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ اقلیتوں کوملازمتوں اور دیگر معاملات میں محرومی کا احساس نہ ہو۔مزید برآں انہوں نے کہا کہ ہولی کا تہوار ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ یہ نیکی ہے جو باقی رہے گی اور بدی کو لازماًشکست ہوگی۔
وزیرِ اعظم پاکستان کی طرف سے ہولی کے تہوار پر خیر سگالی کا یہ بیانیہ بلاشبہ پاکستان کی تما م مذہبی اقلیتوںکے لئے امید اور حوصلے کا پیغام ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔لیکن ملک کی محروم و پسماندہ اقلیتوں کی زندگیوں میں حقیقی آسانیاں اسی وقت پیدا ہونگی جب عملی طور پر انہیں ریاست کے برابر کے شہری تسلیم کیا جائے گا۔
اس سلسلہ میں ان تمام امتیازات و تعصبات کا خاتمہ کرنا ہو گا جن کی وجہ سے اقلیتوں میں محرومی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔اقلیتیں ملک کی پر امن شہری ہیں جنہوں نے پاکستان کے قیام اور اس کی تعمیر و ترقی میں قابلِ ذکر کردار ادا کیا ہے مگر اپنے حقوق و مفادات کے حوالے سے انہیں ہمیشہ خدشات لاحق رہے ہیں۔اقلیتوں کے ان خدشات و تحفظات کا ازالہ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ۔اس ضمن میں ہماری دلی تمنا ہے کہ وزیرِ اعظم کا یہ تازہ ترین بیان اقلیتوں کے حقوق کی بحالی کے ایک خوشنماخواب کی بجائے عملی اقدامات کا حامل قرار پائے۔