اسلام آباد (جیوڈیسک) حکومتِ پاکستان نے وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اہم اجلاس سے مبینہ طور پر لیک ہونے والی انگریزی اخبار ڈان کی ‘قومی سلامتی کے منافی’ خبر کی اشاعت کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں بیوروکریٹس کے علاوہ خفیہ اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
ایک ماہ پہلے سات اکتوبر کو شائع ہونے والی اس خبر میں غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف کا ذکر کیا گیا تھا تاہم حکومت اور فوج دونوں نے اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا تھا۔
وزارت داخلہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق سات رکنی کمیٹی کی سربراہی ریٹائرڈ جج جسٹس عامر رضا خان کو سونپی گئی ہے جبکہ دیگر ممبران میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز، محتسبِ اعلیٰ پنجاب نجم سعید اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور کے علاوہ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کا بھی ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔
خبر کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے سے پہلے گذشتہ ماہ 29 اکتوبر کو وزیرِاعظم نے اپنی کابینہ کے رُکن اور وزیرِ اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو عہدے سے اِس بات پر ہٹا دیا تھا کہ اُنھوں نے اِس خبر کو رکوانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا تھا۔
پرویز رشید کو عہدے سے ہٹانے سے ایک دن پہلے وزیراعلیٰ پنجاب، وفاقی وزیر خزانہ اور وفاقی وزیر داخلہ نے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں انھیں قومی سلامتی کے اجلاس سے متعلق لیک ہونے والی خبر کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات سےآگاہ کیا۔
اِسی تناظر میں 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نےکہا تھا کہ جھوٹی خبر نہ رکوانا پرویز رشید کا قصور ہے اور ان کی کوتاہی یہ ہے کہ بطور وزیرِ اطلاعات انھوں نے اپنی ذمہ داری درست طریقے سے ادا نہیں کی۔
’ڈان کی خبر میں نان سٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس آئی اور وزیراعلی پنجاب میں تلخی کی بات سراسر جھوٹ ہے‘
وزیرِ داخلہ نے کہا تھا کہ ڈان کی خبر کا معاملہ منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا اور اس بات پر اتفاق ہے کہ جس نے بھی یہ جھوٹی خبر ڈان کو دی ہے، وہ قوم کے سامنے آنا چاہیے۔
پانچ نومبر کو وزیرِ داخلہ نے کہا تھا پیر تک وہ اِس تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان کردیں گے۔ اُنھوں نے یہ خبر دینے والے صحافی سرل المیڈا اور ان کے ادارے یعنی ڈان گروپ سے اپیل بھی کی تھی کہ چونکہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے اس لیے وہ اس سلسلے میں حکومت سے تعاون کریں۔