وزیر اعظم عمران خان نے اسمبلی میں خواجہ آصف کے طنز کا جواب دیتے ہوئے کہا ،کیونکہ میں مائنڈ نہیں کرتا ،یہ میٹر نہیں کرتے ،انہوں نے یہ بھی کہا موصوف جب فارن منسٹر تھے تو واشنگٹن میں ایشیئن سوسائیٹی والے انٹر ویو کر رہے تھے انہوں نے خواجہ آصف سے سوال کیا کہ پی ایم ایل این یعنی آپ میں اور پی ٹی آئی میں فرق کیا ہے تو سوٹ شوٹ پہنے خواجہ آصف نے جواب دیا کہ ہم پی ٹی آئی سے زیادہ لبرل ہیں جبکہ پی ٹی آئی والوں کا رحجان دینی یعنی انتہا پسندوں کی طرف زیادہ ہے۔
یہ جو خود کو لبرل کہتے ہیں یہ صرف لبرلی کرپٹ ہیں یہ سارے باہر جا کر لبرل بن جاتے ہیں جبکہ ملک میں یہ سچے عاشق رسول کہلاتے ہیں میں ان کی باتوں کو مائنڈ نہیں کرتا کیونکہ میں ان کا سارا کچا چٹھا جانتا ہوں وزیر اعظم نے کہا یہ باہر جا کر ایک ہی ڈیمانڈ کرتے ہیں ہمیں بچا لو ورنہ پاکستانی انتہا پسند پاکستان کو ٹیک اوور کر لیں گے انہوں نے پاکستان کی سالمیت اور پاکستانی امیج کو جتنا نقصان پہنچایا ہے وہ کوئی دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا ،اس بیان کے دوران خواجہ صاحب کا وہ انٹرویو بھی دکھایا گیا جس میں وہ اعترافی بیان دے رہے تھے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ لبرل ہیں اور مندر کی زمین بھی انہوں نے ہی الاٹ کی تھی 2016میں تو پھر یہ مندر کے خلاف درخواست لے کر عدالت کیوں گئے ؟کیا یہ منافقت کی انتہا نہیں ؟ کہ زمین میاں نواز شریف نے دی پ لوگ چار سال خاموش رہے اور اب خود ہی ان کو اشارہ دیا کہ مندر کی تعمیر شروع کرو اور خود ہی درخواست لے کر پہنچ گئے یہ سیاست ہے تو بہت ہی گندی سیاست ہے یہ منافقت ہے بد دیانتی ہے منافق تو آپ تھے ہی صرف کرسی کے لیے ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے گالیاں دیتے نعرے بازی کرتے اور عوام کو بے وقوف بنا کر ووٹ لیتے رہے عوام کبھی پیپلز پارٹی کی طرف دوڑتی کبھی نون لیگ کو نجات دھندہ سمجھ کر اس کیطرف بھاگتی اگر عمران خان درمیان میں آ کر ” اڑنگا ” نہ مارتا تو اس عوام کو کبھی پتہ ہی نہ چلتا کہ یہ نجات دھندہ نہیں بلکہ نا دھندہ ہیں غضب خدا کا عوام کو پتہ ہی نہیں بند پڑی سٹیل مل کے نو ہزار ملازمین بغیر کام کیے تنخواہیں لے رہے ہیں کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ آپ پانچوں براعظموں میں جائیدادیں بنانے کی بجائے ایک ہی بار پیسہ لگا کر پہلے اس سٹیل مل کو چالو کر لیتے اگر آپکی سٹیل ملیں اربوں منافع دے سکتی ہیں تو اس نمانے پاکستان کا بھی بھلا کر دیتے لیکن نہیں تم تو خود ہی دکاندار خود ہی خریدار بن کر کوڑیوں کے مول پاکستان کو خریدتے رہے اور منی لانڈرنگ کے ذریعے لوٹ کا مال باہر بھیجتے رہے۔
لوگ حیران ہیں جب سب کچھ سامنے ہے تو ان کو سزا کیوں نہیں ملتی ؟پولیس افسروں کے اعترافی بیان ،عذیر بلوچ کا اعترافی بیان جو کہ اس نے حال ہی میں دیا ہے عام آدمی تو صرف شبے میں ہی دھر لیا جاتا ہے اور مار مار کے ناکردہ گناہ بھی تسلیم کرا لیے جاتے ہیں یہاں تو سب کچھ سامنے ہے ابھی تین چار دن پہلے بلاول زرداری نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اس کے باپ آصف علی زرداری کو قتل کرانا چاہتی ہے ایک تو پیپلز پارٹی قتل سے کم پر بات نہیں کرتی لاشوں کی سیاست اسے راس جو آ گئی ہے۔
بلاول دراصل عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی کی رپورٹ کے ممکنہ طورپر انکشافات کے ممکنہ اثرات کی طرف اشارہ کر رہا تھا جس میں آصف علی زرداری پر قتل اور اقدام قتل کے متعدد مقدمات بن سکتے ہیں (شائد اسی لیے فورا زرداری کو ملک سے باہر جانے کی ضرورت پیش آ گئی ہے )کیونکہ عذیر بلوچ نے اپنے اعترافی بیان میں بہت سے قتل آصف علی زرداری اور اس کے قریبی ساتھیوں کے ایما پر کرنے کا انکشاف کیا ہے اس کے علاوہ وہ فشریز سے ماہانہ ایک کروڑ روپے بھتہفریال تالپور اور بیس لاکھ روپے ماہانہ خود لینے کا اعتراف بھی کیا فریال تالپور نے اسلحہ اور بارود چھپائے اور باقی معاملات شرجیل میمن اور نثار مورائی کے حوالے کیے تھے۔
عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ 36صفحات پر مشتمل ہے رپورٹ میں عذیر بلوچ کے اہل خانہ اور دوستوں کے نام بھی درج ہیں رپورٹ میں حبیب جان ،حبیب حسن ،سیف علی ،نور محمد سمیت درجنوں نام شامل ہیں عذیر نے 196افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا اس نے لسانی اور گینگ وار تنازع میں ان سب افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا عذیر بلوچ نے اثر و رسوخ کی بنا پرسات ایس ایچ اوز تعینات کرائے اس نے اقبال بھٹی کو TPOلیاری تعینات کرایا عذیر بلوچ نے 2009میں محمد رئیس کو ایڈمنسٹر لیاری لگوایا جے آئی ٹی رپورٹ ملزم کے بیرون ملک فرار کے باوجود لاکھوں بھتہ دبئی بھیجا جاتا رہا 2008 سے 2013 کے دوران مختلف ہتھیار خریدنے کا انکشاف ،ملزم متعدد پولیس اہلکاروں اور رینجرز کے قتل میں ملوث ہے عذیر بلوچ کے پاکستان اور دبئی میں غیر قانونی اثاثوں کا انکشاف بھی ہوا ہے اس نے لالہ توکل اور سلیم پٹھان سے اسلحہ خریدنے کا انکشاف کیا جو اس نے 2009کے بعد اپنے ساتھیوں کو دینے کا اعتراف کیا رحمان ڈکیت کے بعد فشنگ بوٹ مالکان سے بھی بھتہ وصول کرتا رہا عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی میں بیس سے زائد دوستوں کے نام شامل ہیں یہ خود گینگ وار میں براہ راست بالواسطہ طور پر ملوث رہا عذیر بلوچ کو 2006 میں ٹھٹھہ کے علاقے جوہڑ جمالی سے گرفتار کیا گیا اس کا سات کیسز میں چالان کیا گیا۔
یہ دس ماہ جیل میں رہا کراچی اپریشن میں عذیر بلوچ نے اپنے استاد تاجو کو پہلے دبئی پھر افریقہ منتقل کیا اس نے دس سے زائد کارندوں کو ایران اور دیگر ممالک بھجوانے کا اعتراف کیا عذیر بلوچ نے گینگسٹرز کی مدد کرنے والے پولیس افسران کی تقرریاں کرانے کا اعتراف بھی کیا 8سے زائد پولیس افسران کو اس نے مختلف مقامات پر تعینات کرایا لیاری ٹائون کا سابق ایڈ منسٹریٹر2009 سے اسے دو لاکھ روپے بھتہ دیتا تھا۔
عذیر بلوچ کی ہدایت پر گینگ کارندے مال بردار ٹرک لوٹتے تھے مال بردار ٹرک فروخت کرنے کے بعد 15لاکھ اسے حصہ دیا جاتا تھا عذیر بلوچ کا ایران سے پیدائشی سرٹیفکیٹ ،شناختی کارڈ اور پاسپورٹ لینے کا اعتراف ایران سے بوگس دستاویزات بنوانے میں ایک خاتون عائشہ نے ساتھ دیا ۔۔۔۔۔ اب لوگ سوال تو اٹھائیں گے کہ اتنی جانکاری کے بعد اتنے سالوں میں بھی مجرم آزاد کیوں ہیں ْ حالانکہ ان کو سوچنا چاہے یہ سلسلہ چودہ سال پرانا ہے تب تب مشرف دور میں نیب نے کام شروع کیا۔
2007سی آئی اے جمہوریت اس لیے لائی کہ پاکستان کو بالاآخر ختم کیا جائے سی آئی اے کا منصوبہ 2015 تک پاکستان کو مکمل ختم کرنے کا تھا اور صرف اسی کام کے لیے سی آئی اے نے افتخار چودھری اور زرداری کو لانچ کیا تھا اور جیو ٹی وی ،ٹی ٹی پی ،ایم کیو ایم اور بی ایل اے کو کام تیز کرنے کے احکامات تھے لیکن یہ منصوبہ صرف اور صرف جنرل پاشا کی وجہ سے ناکام ہوا۔
عمران خان کڑوا اسلیے لگ رہا ہے کہ اس نے اپنی فوج کو اون کیا ہے اس کے سامنے دشنوں کو خوش کرنے کے لیے حریف بن کر کھڑا نہیں ہو گیا پاکستان کو اپنا ملک اور فوج کو اپنی فوج سمجھا وہ جانتا ہے ستر سال کا بگاڑ چند دنوں یا سالوں میں ٹھیک نہیں ہو سکتا پہلے بھی تو جب بگاڑ حد سیبڑھ جاتا تھا تو مارشل لا لگ جاتا تھا عارضی طور پر ملک دشمن سرگرمیاں رک جاتیں سارے ٹھگ باہر چلے جاتے بدنام فوج ہوتی اور یہ لٹیرے لوٹے ہوئے پیسوں سے موج میلہ کر کے فریش ہو کر واپس آ جاتے لیکن اس بار عمران کے آنے سے گیم الٹ گئی میوزک چیئر کا کھیل بند ھو گیا ،لیکن عوام اس فوری رزلٹ کی عادی ہو چکی ہے سندھ سے محمد ہاشم سموں نامی ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا ہم بھی خان صاحب کی حمایت کرتے ہیں لیکن احتساب کا عمل رکا ہوا ہے جو نہیں رکنا چاہیے تھا سندھ کو زرداری لیگ نے تباہ کر دیا ہے۔
میں نے اسے کہا بھائی احتساب کا عمل سست ضرور ہے رکا نہیں اس میں رکاوٹ آئینی پیچیدگیاں ہیں ظاہر ہے ترمیمیں کر کر کے آئین کا حلیہ بگڑ گیا ہے رہی سہی کسر اٹھارویں ترمیم نے پوری کر دی ہے وفاق کے ہاتھ بندھے ہیں اور صوبوں میں اب تک وہی شطرنجی چالیں چل رہی ہیں اگر آپ کہیں مارشل لا لگ جائے تو یہ حل نہیں ہے نہ فوج کو اقتدار سنبھالنے کا شوق ہے ہاں سسٹم بدلنے کا فیصلہ سب کا ہے یہ سسٹم صرف طاقتور کو تحفظ دے رہا ہے کمزور جنگل کے قانون کی زد میں ہے اس کی مکمل اوور ہالنگ ضروری ہو چکی ہے اب ایک ایماندار ملک دوست حکمران مل ہی گیا ہے تو بے صبری اور ناشکری مت کرو اپنی فوج اور وزیر اعظم کا ساتھ دو انشا اللہ وہ دن دور نہیں جب یہ منافق اپنے انجام کو پہنچیں گے ابھی وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں یہ انتشار یہ افراتفری یہ پے در پے حملے الزامات ،جھوٹی خبریں روز ایک نیا ڈرامہ ،اس لیے نہیں کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے یہ چیخیں اس لیے ہیں کہ حکومت کامیاب ہو گئی تو ہمارا کیا ہوگا ہماری نسلیں کس ملک پر حکومت کریں گی اس لیے اب دھونس ،دھاندلی ،دھمکیاں ،دشمنوں سے مدد مانگنے تک کے حربے استمعال ہو رہے ہیں چراغ بجھتے وقت پھڑ پھڑاتا ضرور ہے بس اپنی امید زندہ رکھیے۔