ایک تقریب کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا کہ سکون کی زندگی قبر میں ہوتی ہے۔یہ سچ ہے کہ دنیاوی زندگی آزمائش اور چیلنجز پر مبنی ہے پھر بھی خوبصورت زندگی کوسکون سے خالی قرارنہیں دیاجاسکتا،بقول وزیراعظم عمران خان جو سکون کی زندگی ہے وہ صرف قبر میں ہی ہوتی ہے انتہائی عجیب اورناقابل یقین منطق ہے ۔بطورمسلمان ہم سمجھتے ہیں کہ دنیاوی زندگی میں کی جانے والی جدوجہدصرف دنیاوی زندگی کوخوبصورت اورپرسکون بنانے کیلئے نہیں بلکہ قبرکی زندگی جسے برزخی زندگی بھی کہاجاتاہے اورآخروی زندگی یعنی قبروں سے اٹھائے جانے کے بعدوالی زندگی میں بھی آسانیاں پیداکرنے کیلئے کی جاتی ہے ۔یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ دنیاوی زندگی میں احکام الٰہی سے روح گردانی کی جائے ،خلق اللہ کی حق تلفی کی جائے،سودی نظام کی حمایت کی جائے،ظلم وناانصافی کی تمام حدیں عبورکی جائیں اورپھرقبرمیں پرسکون زندگی کی خواہش بھی کی جائے؟وزیراعظم شائد بھول گئے ہوں گے کہ قبریاآخرت میں ایسی حکومت اور عدلیہ نہیں ہوگی جومجرمان کوسزادینے کی بجائے اُن کے ساتھ سیٹلمنٹ کرلیتی ہے۔
ہمارے محترم وزیراعظم کیوں بھول جاتے ہیںکہ22کروڑ لوگوں کی تعلیم وتربیت،عقل وشعورایک جیساہے نہ صبروشکرکی توفیق برابراورنہ ہی سب کی امیدیں اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ حالات سے لڑجائیں،بہت سارے لوگ حالات سے تنگ آکرخودکشی کاسوچ رہے ہوتے ہیں ایسے میں وزیراعظم عمران خان کایہ کہناکہ سکون کی زندگی صرف قبر میں ہی ہوتی ہے قیامت خیزمعلوم ہوتاہے۔اہل علم وشعوراچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جب لوگ ناامیدہونے لگتے ہیں تواُن میں سے کمزورارادے والے منشیات کی لت میں مبتلاہوجاتے ہیں یادیگرجرائم پیشہ عناصریہاں تک کہ دہشتگردوں کاآسان شکاربن کرامن کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔محترم وزیراعظم نجانے کیوں انتظامی امورپربات کرنے کی بجائے زیادہ وقت تبلیغ کرتے نظرآتے ہیں۔اہل صبروشکرجانتے ہیں کہ اُمیدیں اپنے حقیقی حاکم خالق،مالک اوررازق سے لگانی ہیںدنیا فانی کے کسی ناقص حاکم انسان سے نہیں۔یہ بھی بہت بڑی حقیقت ہے کہ غربت انسان کوگمراہ کردیتی ہے لہٰذامشکل ترین دورمیں زندگی کیلئے جدجہدکرتے لوگوں میںمایوسی پھیلانے والے عمل یاگفتگوسے گریزکیاجائے توبہترہوگا۔قبر میں سکون کی زندگی میسرآئے گی یاعذاب ملے گااس کافیصلہ کرناہمارے اختیارمیں نہیں۔یہ فیصلہ تواعمال کے مطابق عادل حقیقی اللہ رب العزت فرمائے گا۔
ہمیں اپنی ہستی اوراوقات کے مطابق بات کرنی چاہئے۔اہل علم کے مطابق انسان کی زندگی کی تین اقسام ہیں ۔نمبر1 دنیاوی زندگی جو کہ موت سے ختم ہو جاتی ہے2برزخی زندگی جو موت کے بعد قیامت تک ہے3آخروی زندگی جو کہ لوگوں کے قبروں سے نکلنے کے بعد جنت کی طرف جانا اللہ تعالی سے ہم اس کا فضل مانگتے ہیں یا پھر آگ کی طرف جانا اس سے اللہ تعالی اپنی پناہ میں رکھے۔سوال یہ ہے کہ مرنے کے بعد جب گھروالے قبرمیںاتارکرچلے جاتے ہیںاور فرشتے انسان سے قبر میں سوال وجواب سے فارغ ہو جاتے ہیںتب نیک وپرہیزگار اور گناہ گار قبر میں قیامت تک ایک جیسی پرسکون زندگی گزاریں گے یاپھربرابرعذاب میں مبتلارہیں گے؟برزخی زندگی جو کہ انسان کی موت کے بعد سے لے کر دوبارہ اٹھنے تک ہے ۔اہل علم ودانش کاکہناہے کہ برزخی زندگی بھی دنیاوی زندگی کی طرح یا تو نعمتوں والی ہو گی یا پھر سختی وعذاب والی۔
قبرنیک وپرہیزگاروںجن پراللہ،رسول کی مہربانی ہوگی جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہوگی اورگناہگاروں جواللہ کے فضل اوررسول اللہ ۖکی شفاعت سے محروم رہ گئے اُن کیلئے قبر آگ کے گڑہوں میں سے ایک گڑھا ہو گی۔جس کی ایک مثال یوں ہوسکتی ہے کہ ایک انسان کہتاہے کہ میں نے جان اللہ کو دینی ہے،عدالت میں فوٹیج ،تمام ثبوت پیش کریں گے،اے این ایف کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بناتا۔فلاں کو منشیات کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑااورپھرفلاں کہتاہے کہاہے کہ اللہ کوحاضروناظرسمجھ کر، قرآن کوگواہ بناکرکہتاہوں کہ جھوٹ بولوں تومجھ پرخدا کا قہر نازل ہو5بار پنجاب اسمبلی کارکن منتخب ہوااب ایم این اے ہوں۔قرآن پاک کوگواہ بناکرکہتاہوں کہ سیاسی کیریئرمیں کسی منشیات فروش کی سفارش نہیںکی،کبھی کسی منشیات فروش کوسہولت نہیں دی۔
جنہوں نے گودام سے 15کلوہیروئن نکال کر مجھے عدالت میں پیش کردیا اُن پرخداکاقہرنازل ہو۔اب ذرہ غورکریں ایک بااختیاروزیراللہ کوجان دینے کے یقین کے ساتھ الزام عائدکرتاہے تودوسرامتعلقہ انسان اللہ اورقرآن کوگواہ بناکرکہتاہے کہ جھوٹ بولے تواُس پرقہرنازل ہو۔ایسے حالات میںکوئی انسان یہ فیصلہ کیسے کرسکتاہے کہ کون سچ بول رہاہے اورکون جھوٹ؟کون کہہ سکتاہے کہ قبرمیں دونوں کے حالات ایک جیسے ہوں گے؟ہماری غلطیوں اورگناہوں پربخش دینے کااختیاراللہ سبحان تعالیٰ کے پاس ہے لہٰذااس امیدکے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ سب پر فضل فرمائے،کرم فرمائے ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ برزخ میں زندگی کیسی ہو۔