اقوام متحدہ کے قیام کے مقاصد میں اقوام عالم کو درپیش مسائل کو حل کرانا ترجیح تھا لیکن اقوام متحدہ کی غیر موثر اقدامات کے سبب دنیا میں بڑے پیمانے پر جنگی و سیاسی معاملات کو خصوصی نکتہ نظر کے تحت دکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو آمرانہ اختیارات حاصل ہیں اور پانچ مستقل اراکین کی اجارہ داری کی وجہ سے کئی تصفیہ طلب مسائل کو اختلافات و ویٹو کے غیر معمولی اختیار کی وجہ سے حل کرنے میں دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ اقوام متحدہ میں اُن با اثر ممالک کا اثر نفوذ زیادہ ہے جو اقوام متحدہ کو چلانے کے لئے فنڈ زیادہ دیتے ہیں ، خاص طور پر امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کو فروعی مفادات کے لئے استعمال کرنے کی روش 191ممالک کے حقوق پر سوالیہ نشان ہے۔27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں چار عالمی امور سمیت مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ پیش کیا۔5اگست کے بعد بھارتی جارحانہ اقدامات کے بعد مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال نے عالمی ذرائع ابلاغ کی بھرپور توجہ حاصل کی ، شملہ معاہدہ اور قرارداد لاہور کے بعد ایک بار پھر عالمی متنازع علاقہ دونوں ممالک کے باہمی تنازع کی نظر دیکھے جانے لگا تھا۔
سلامتی کونسل کے غیر رسمی اجلاس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظالمانہ اقدامات کو عالمی ذرائع ابلاغ نے خصوصی اہمیت دینا شروع کی اور ایسے نشریاتی ادارے بھی بھارتی اقدامات کے خلاف نمایاں خبریں آرٹیکلز اور انٹرویو دینے لگے ۔ جو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کی ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈوں میں سر فہرست تھے ۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں طویل ترین کرفیو ، لاک ڈائون اور کشمیری عوام کو درپیش شدید مشکلات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور عالمی ذرائع ابلاغ نے مقبوضہ کشمیر کی عالمی متنازعہ علاقہ کی حیثیت کو بھرپور اور غیر جانبدارنہ طریقے سے اجاگر کیا ۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے ساتھ آزاد کشمیر پر بھارت کی ممکنہ سازشوں کے حوالے سفارتی ذرائع استعمال کرنا شروع کئے اور سعودی عرب کا خصوصی دورہ بھی کیا ۔ جنرل اسمبلی کے بعد وزیر اعظم چین بھی جائیں گے۔
خاص طور پر اقوام متحدہ کا حالیہ اجلاس اہمیت کا درجہ حاصل کرچکا ہے کیونکہ وزیراعظم نے مودی سرکار کے چہرے پر پڑی نقاب کو نوچ کر عالمی برداری کے سامنے آشکار کردیا ہے۔ وزیر اعظم نے عالمی برداری کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بے حسی و غیر موثر رہنے کے بعد کسی بھی قسم کی اسٹریجک غلطی کا ذمے دار پاکستان نہیں ہوگا ۔ عالمی بردار ی کو یہ بھی باور کرادیا ہے کہ بھارت کو ایک تجارتی منڈی کے طور پر اپنے فروعی مفادات کو اہمت دی ہوئی ہے لیکن جب دو ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ شروع ہوگی تو کوئی بھی ملک بھارت کی تجارتی منڈی سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا ۔ ہاں یہ ضرور ہے خطے میں امن سے اقوام عالم اپنا فائدے سمیٹ سکے لیکن جنگ کے بعد ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ۔ وزیر اعظم کا ٹھوس موقف اقوام عالم کے ریڈ الرٹ ہے ۔ کیونکہ بھارت کی جانب سے بلا اشتعال کاروائی کا اس بار ایسا جواب دیا جاسکتا ہے جس کی امید بھارت تو کیا پوری دنیا کو بھی نہیں ہو گی۔
ن کشمیر میں عمران خان نے امریکہ میں تھنک ٹینک ‘کونسل فار فارن ریلیشنز’ میں دولتِ مشترکہ کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ مشترکہ سیشن سے بھی خطاب کیا ۔ ‘کونسل فار فارن ریلیشنز میں خطاب میں عمران خان نے مقبوضہ کشمیر سمیت کئی اہم عالمی امور پر بھی بات کی لیکن ان کا فوکس مقبوضہ کشمیر پر تھا۔ ان کے خطاب میں یہ کہنا بڑا صائب تھا کہ بھارت انتہا پسند حکومت کی جانب سے جس مسلم نسل کشی کی جا رہی ہے اگر اس پر عالمی اداروں نے اپنا کردار ادا کرنے میں تاخیر کردی تو اس بات کا افسوس ہوگا کہ ‘ بہت دیر کردی’۔ مشن کشمیر میں وزیر اعظم اقوام عالم کو میڈیا کے توسط سے آگاہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بدترین صورتحال کی عکاسی کی کہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 51 روز سے 80 لاکھ کشمیری باشندے محصور ہیں جنہیں 9 لاکھ بھارتی افواج نے یرغمال بنا رکھا ہے، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو اجاگر کرنا ضروری ہے، جنرل اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے لیے آیا ہوں دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط دکھایا جانا ضروری ہے کہ یہ لوگ گزشتہ 70 سال سے اپنے حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ نے کشمیری باشندوں کو استصواب رائے کا حق دیا لیکن بی جے پی کی حکومت نے یک طرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے، کشمیر کی تمام لیڈر شپ جیل میں ہے، 51 روز سے مقبوضہ کشمیر سے متعلق خبروں کا بلیک آؤٹ ہے، مسئلہ کشمیر حل کرانا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کیوں کہ اقوام متحدہ کی 11 قراردادوں میں مسئلہ کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا گیا۔
عمران خان نے کہا کہ امریکا میں کشمیری افراد سے ملاقات ہوئی جن کا اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں، بھارت کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتا ہے، کشمیر کے معاملے پر دنیا بھر کے سربراہان سے ملا اور انہیں مسئلہ کشمیر پیش کیا کہ 80 لاکھ افراد کو جیل میں قید کردیا گیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کیوبا بحران کے بعد تاریخ میں پہلی بار دو جوہری طاقتیں آمنے سامنے ہیں، خطے میں کشیدگی پیدا ہوچکی، اس بحران کو کم کرنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی لیکن مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ہٹنے تک بھارت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہوسکتی۔کشمیر میں قتل عام ہوا تو ذمہ دار عالمی برادری ہوگی۔عمران خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر سے کوئی خیر کی خبر سامنے نہیں آرہی، کشمیریوں کو گھروں سے اٹھایا جارہا ہے لیکن دنیا مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ نہیں کررہی، مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کے رویے سے بہت دکھ ہوا، دنیا کو خبردار کررہا ہوں کہ کرفیو ہٹنے پر مقبوضہ کشمیر میں قتل عام کا خدشہ ہے اگر قتل عام ہوا تو اس کی ذمہ دار عالمی برادری ہوگی۔مودی حکومت دراصل مسلمانوں کو ہی ختم کرنا چاہتی ہے۔
مودی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار ہے اور کشمیر میں بھی ظلم اسی لیے ہورہا ہے کہ وہاں مسلمان بستے ہیں۔ یہ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ایک ایسا دو ٹوک موقف اور صورتحال کو سامنے لانا تھا جسے ذرائع ابلاغ انکار نہیں کرسکتا کیونکہ انٹرنیشنل میڈیا یہ سب کچھ خود دیکھ رہا تھا اور بھارتی ہٹ دھرمیوں اور جھوٹ کو رد کرتے ہوئے حقیقی زمینی حقائق کو پیش کررہا تھا ۔ وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ عالمی برداری کے سامنے رکھا ، بھیانک صورتحال سے آگاہ کیا ۔ عالمی برداری بشمول مسلم اکثریتی ممالک کی مجبوریوں سے آگاہی دی اور نوحہ کشمیر پر آواز کو بلند کرتے رہے کیونکہ اس وقت عمران خان تما م تر ملکی مسائل ، تحفظات اور بھارتی دہمکیوںکے باوجود عالمی برداری کو بیدار کرنے میں مصروف ہیں اور اپنا سفارتی حق ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
مشن کشمیر میں وزیر اعظم کے شیڈول کے ہر حصے میں مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ ماضی کے مقابلے میں بڑے جوش و خروش سے پیش کیا جارہا ہے ۔ عمران خان سے سیاسی اختلافات چاہے کوئی بھی رکھتا ہو لیکن وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میںشرکت کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ گزشتہ برس وزیر اعظم اسی وجہ سے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس نہیں گئے تھے کیونکہ انہیں پہلی مرتبہ حکومت ملی تھی ، ناتجربہ کاری تھی ، معیشت کے مسائل تھے ، وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اس بار 5اگست کے بعد میں میں چند ہفتوں میں مصروفیت سے بھرپور شیڈول یقیناََ قابل تعریف ہے۔ ان سفارتی کوششوں کوکوئی نام بھی دیا جائے لیکن اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ صرف چند ہفتوں میں مقبوضہ کشمیر کو عالمی ذرائع ابلاغ کا اہم موضوع بنا دیا ۔ گر یہی کوششیں جاری رہیں تو ممکن ہے کہ بھارت دبائو میں آسکے ۔ کم ازکم مقبوضہ کشمیر کے عوام یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان بالکل خاموش رہا ۔ اپوزیشن اور ناقدین تحریک انصاف کی جانب سے مختلف قیاس آرائیاں و الزامات کا سلسلہ جاری ہے ۔ تاہم کسی بھی امر کو بنا ثبوت مان لینا ۔ منصفانہ عمل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ یقینی طور پر کئی معاملات میں تحفظات ضرور ہیں لیکن وقت کے ساتھ گرد ہٹتی چلی جائے گی اور زمینی حقائق مزید سامنے آتے جائیں گے۔
پاکستان ایک ایٹمی ملک اسلامی دنیا میں ایک قوت و دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے والا اہم ترین مملکت کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پاکستان کو سائیڈ لائن یا نظر انداز کرکے کسی بھی عالمی طاقت کا خطے میں اپنا اثر رسوخ بنا لینا آسان عمل نہیں ہے۔ پاکستان کی اہمیت کو عالمی برداری بخوبی سمجھتی ہے ، خاص کر پاکستان اس وقت جس طرح افغانستان میں امن کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کیا اس کو عالمی برداری نے ستائشی نظروں سے دیکھا اور اس کا برملا اظہار بھی کیا ۔ امریکا میں بیٹھ کر وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ صدر ٹرمپ اگر پاکستان سے مشورہ کرلیتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی اور مسودے پر دستخط کے بعد طالبان اور کابل انتظامیہ مذاکرات کی میز پر آسکتے تھے۔
عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر کرفیو کے خاتمے کے لئے صدر ٹرمپ کو اپنا موثر کردار ادا کرنے کو کہا ۔امریکی صدر بار بار پاکستان و بھارت کو ثالثی کی پیش کش کررہا ۔ بھارت کی جانب سے انکار پر دراصل امریکی صدر اور اقوام متحدہ کی سبکی اور انہیں شرمندگی کا سامنا ہورہا ہے کہ امریکی صدر جس بھارتی وزیر اعظم کو اپنا بہترین دوست کہتے ہیں وہ انہیں دنیا میں بار بار شرمندہ کروا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تسلیم کیا کہ ہوسٹن میں میری موجودگی میں نریندر مودی نے جارحانہ رویہ اختیار کیا ۔ صدر ٹرمپ جانتے ہیں کہ مودی سرکار اس وقت اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور کسی ثالثی پیش کش اور پاکستان سے مذاکرات کرنے پر تیار نہیں ہے۔’
مشن کشمیر ‘ کے حوالے سے وزیر اعظم اقوام متحدہ کومقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارح افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مودی سرکار کے فسطائیت کے نظریئے سے آگاہ کررہے ہیں۔ وزیرِ اعظم بار بار کہہ چکے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے پر جب بھی بین الاقوامی ثالثی کی بات کی جاتی ہے تو انڈیا کی جانب سے اسے دو طرفہ مسئلہ قرار دیا جاتا ہے مگر اس کے بعد انڈیا پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔انھوں نے کہا کہ انڈیا میں انتخابی مہم پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دے کر چلائی گئی۔انھوں نے کہا کہ انڈین حکومت نے کرفیو لگا کر 80 لاکھ کشمیریوں کو محصور کر رکھا ہے۔
انھوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ انڈیا پر کرفیو کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالے۔وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بلیک لسٹ میں شامل کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ یہ بھی کہا کہ ‘پاکستان اپنی سرزمین پر کسی بھی دہشتگرد گروہ کو کام کرنے نہیں دے گا۔عمران خان نے نفرت انگیز تقریر کے بجائے عالمی برداری کو یہ پیغام دیا کی کہ میں ان پاکستانیوں میں سے ہوں جنھیں انڈیا سے بہت محبت ملی اور انڈیا کے حالات دیکھ کر مجھے انڈیا کی پاکستان سے زیادہ فکر ہوتی ہے ۔وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دنیا کو بھارت کی عالمی قوانین کی خلاف ورزی سے آگاہ کرنے کیلئے آیا ہوں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں بنیادی حقوق سے محرومی انتہا پسندی کوجنم دیتی ہے، دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، لیکن بد قسمتی سے نائن الیون کے بعد مغربی ممالک کے رہنمائوں نے دہشت گردی کو مسلمان کے ساتھ منسلک کردیا، انتہاپسندی اور خودکش حملوں کو بھی اسلام سے جوڑا گیا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ نائن الیون سے پہلے 75 فیصد خودکش حملے تامل ٹائیگر کرتے تھے لیکن کسی نے بھی ہندو مذہب کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا، اس سے پہلے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے فوجیوں نے بھی خودکش حملے کیے، جرمن مسجد میں مسلمانوں کا قتل کیا گیا لیکن اس کا مذہب سے تعلق نہیں جوڑا گیا، بھارت میں نفرت پسند اور انتہا پسند اقتدار میں آگئے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اعتدال پسند اور بنیاد پرست اسلام کے نظریات سے متفق نہیں، دہشت گردی اور اسلام کو الگ الگ کیا جانا چاہیے، ہم ایک ہی اسلام پر یقین رکھتے ہیں جس کی تعلیمات رسول اکرمۖنیدیں، مغربی لوگوں کو معلوم ہی نہیں مسلمان پیغمبراسلامۖ سے کس قدرعقیدت رکھتے ہیں اور رسول پاکۖکی شان میں گستاخی سے ہر مسلمان کا دل بے انتہا مجروح ہوتا ہے۔اگر سادہ لفظوں میں کہا جائے تو وزیر اعظم کا مشن کشمیر ‘ سفارتی ‘ حوالے سے کامیاب رہا اب اقوام متحدہ کی ذمے داری ہے کہ اپنا فرض کس طرح ادا کرتی ہے ؟۔گو کہ اقوام متحدہ عالمی طاقتوں کے ہاتھوں اُن کے فروعی مفادات کی وجہ سے غیر موثر ہے اسی لئے عالمی تنازعات کا حل نہیں نکالا جاتا ۔ تو لیگ آف نیشن ( جمعیت اقوام ) کی طرح حال ہوگا اور غیر فعال ہونے کے سبب اقوام متحدہ کو بھی لیگ آف نیشن کی طرح شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔