وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے دیے جانے والے ظہرانے میں ق لیگ نے شمولیت اختیار نہ کر کے حسب سابق اپنے محسنوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے بلکل اسی طرح جیسے چوہدری برادران نے پرویز مشرف کے ساتھ کیا تھا نواز شریف کو صرف ایک موقعہ ملا تھا اور وہ لیڈر بن گیا وہ دن اور آج کا دن میاں نواز شریف کو سیاست سے اوٹ کرنا مشکل ہو گیا مگر چوہدری برادران کو اقتدار سمیت ہر چیز پلیٹ میں رکھ کر پیش کی گئی اسکے باوجود وہ لیڈر نہ بن سکے اس بار اگر پی ٹی آئی انکا ساتھ نہ دیتی تو پھر چند حلقوں سے چوہدری بھی نہ بن پاتے اوراب اسی چودھراہٹ کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے نوکریوں کی بندر بانٹ کردی اپنے ہی لوگوں کو نوازنے کے لیے قانون اور میرٹ کی دھجیاں آڑادی گئی نہ سیٹ نہ جگہ مگر سینکڑوں افسران بھرتی کرلیے گئے جنہیں سرکاری خرچ پر اپنی اور پارٹی کی خدمت پر معمور کر دیا۔
اسمبلی میں بھرتی ہونے والے افراد میں ایسے بھی ہیں جو خود تو باہر تھے مگر انکے آرڈر ہوگئے اعلی عہدوں پر کن کن کو کیسے بھرتی کیا گیا یہ ایک الگ اور لمبی کہانی ہے اسے پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا مگر اس وقت اقتدار کی غلام گردشوں میں پھنسے ہوئے چوہدری برادار دو کشتیوں میں سوار ہیں کچھ حلقے حمزہ ششہباز کو اسمبلی میں بلانے کے سخت مخالف تھے مگر سپیکر چوہدری پرویز الہی نے ہر اجلاس پر حمزہ شہباز کو بلایا بلکہ انہیں اپنا سیاسی کھیل کھیلنے کے لیے بھر پور موقعہ بھی فراہم کیا صبح سویرے اسمبلی آکر رات گئے واپسی کرنے والے کرپشن کے ملزم حمزہ شہباز اسمبلی کا اجلاس اٹینڈ کرنے کی بجائے سارا دن پارٹی عہدیداروں سے ملکر پلاننگ کرتے رہتے اور اس سلسلہ میں انہیں سپیکر کی بھر پور معاونت رہی کچھ باخبر حلقے میاں نواز شریف کی طرف سے چوہدری برادران کی معافی قبول کیے جانے کی نوید بھی سناتے رہے جسکے پیچھے کچھ خفیہ ملاقاتیں تھیں یہی وجہ تھی کہ سپیکر پنجاب اسمبلی وزیراعظم کی واضح ہدایات کے باوجود نیب کے ملزمان کو اسمبلی میں کھل کر سیاست کا موقعہ فراہم کرتے رہے اور کررہے ہیں اسی وجہ سے چوہدریوں نے عمران خان کی مخالفت کرنے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا حالانکہ ق لیگ کو اگر پی ٹی آئی کا کندھا دستیاب نہ ہوتا تو آج چوہدری برادران اپنی 10سیٹوں سے بھی محروم ہو سکتے تھے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ چوہدری برادران اپنی ق لیگ کو عوام میں مزید مضبوط بناتے مگر انہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن کی زبان استعمال کرنا شروع کردی ق لیگ کے جنرل سیکریٹری اور وفاقی وزیر ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ اگر بااختیار ہوتا تو معاملات اس حد تک نہ پہنچتے، پنجاب کو کون چلا رہا ہے،فیصلے کون کر رہا ہے یہ تو صرف وزیراعظم اور ان کے اکابرین ہی بتا سکتے ہیں،نظام کس کے ہاتھ میں ہے ہم حکومت سازی یا فیصلہ سازی میں حصہ دار نہیں ہیں،ہماری خواہش ہے کہ ہم اہم اعلان کی طرف نہ جائیں،اگر ہم وزیراعظم کیلئے غیر اہم ہو چکے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔
پھر ہم اپنا فیصلہ خود کر لیں گے تاہم اگر ملکی مفاد، قومی سلامتی، عوام کی بہتری اور مسائل حل کرنے میں اگر کچھ فیصلے کرنے ہیں تو ہم آج بھی حاضر ہیں،حکومت چھوڑنے کا ارادہ نہیں ہے۔بلکل صحیح فرمایا چیمہ صاحب نے حکومت میں تو آپ لوگ بہت مشکل سے آئے ہو اسے چھوڑنا تو شائد آپ کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو رہی بات مفادات کی اسکے بغیر تو آپ کی سیاست چل ہی نہیں سکتی لاکھوں نہیں کروڑوں روپے خرچ کرکے آپ لوگ بڑی مشکل سے بیساکھیوں کا سہارا لیکر تو اسمبلیوں میں پہنچے ہو اور اب آپکے کہنے پر تعیناتیاں ہورہی ہیں اور نہ ہی آپ کو وہ فنڈز مل رہے ہیں جو مشرف دور میں ملتے رہے اور اوپر سے آپ چاہتے ہیں کہ پنجاب کی وزارت اعلی کے ساتھ ساتھ آپکے سبھی اراکین کو وزیر بنا دیا جائے ایسا بہت مشکل ہے ہاں جہاں آپ کا زور چلتا ہے وہ آپ نے کام کرلیا نئی اسمبلی کا سیمنٹ،بجری سریا اور مزدور کہاں کہاں استعمال ہوتا رہا اور اب نئے بھرتی ہونے والوں کو کس کس کے گھر بطور نوکر بنا کر رکھا گیا ہے۔
یہ پنجاب حکومت کی آپ پر مہربانی ہی تو ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ورنہ جس طرح آپ نے حکومت کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے بندے بھرتی کیے ہیں اور حکومت نے صبر سے کام لیا اسی طرح آپ بھی باقی کے تین سال صبر،ہمت اور جرات سے کام لیتے ہوئے پی ٹی آئی کا ساتھ دیں اگر درمیان میں شرلیاں،پٹاخے چھوڑنے ہیں تو پھر اس سے بہتر ہوگا کہ خلع لے لیں اسی میں آپکی،عوام کی اور ملک کی بہتری ہوگی اور پھر آنے والے الیکشن میں آپ صرف اپنے زور بازو پر الیکشن لڑلیں آپکو اپنی حیثیت کا اندازہ ہوجائیگا رہی بات پی ٹی آئی کی اسکی حیثیت گلگت بلتستان کے الیکشن میں واضح ہوجائیگی عمران خان اس وقت بہت سے محاذوں پر جنگ لڑ رہا ہے بیرونی دشمن تو نظروں میں ہیں ہی مگر کچھ اندرونی دشمن بھی ہیں جن کی چالوں سے بچنے کیلیے اسکی ٹیم بھی برسرپیکار ہے پنجاب میں فردوس عاشق اعوان کو لانا اچھا اقدام ہے وہ بہتر طریقے سے اس فریضہ کو سرانجام دے سکتی ہے جبکہ فیاض الحسن چوہان اب پہلے سے بہتر پوزیشن پر ہیں وہ اپنی صلاحیتوں کواحسن طریقے سے سرانجام دے سکیں گے۔
اگر انہوں نے جیل میں وی وی آئی پی کلچر کو ختم کرکے سبھی ملزمان کو ایک ہی لائن میں کھڑا کردیا تو انکی بہت بڑی بہادری ہوگی اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر کسی نہ کسی خاتون سے ادھار مساج کروا کر سکون کی زندگی بسر کریں۔آخر میں اتنا کہنا چاہیوں گا کہ عمران خان کی ملک میں سیاحت کے حوالہ سے پالیسیاں بہت اچھی جارہی ہیں اور اس سلسلہ میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اوورسیز سید ذوالفقار بخاری کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سیاحت کے حوالے سے عالمی برانڈ بنائیں گے، ملک میں سیاحتی مراکز پر انفرااسٹرکچر قائم کیا جا رہا ہے حکومت سیاحت کو فروغ کے لیے بہت سنجیدہ ہے اور یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان میں سیاحت غیرملکیوں سے کھلے گی، ہمارے اپنے عوام بھی پاکستان کی سیاحت کریں، تھائی لینڈ کو عالمی سیاحت کا مرکز بننے میں 20سال لگے۔ میری حکومتی اتحادیوں سے بھی گذارش ہے کہ آپس کے اختلافات کو بغیر کسی لالچ کے ختم کرکے اپنے اپنے عہدوں کا مزہ لیں ہوسکتا ہے کہ یہ آپکے لیے آخری موقعہ ہو کیونکہ لڑائی اور لسی جتنی چاہیں بڑھالیں مگر بے لذت ہوتی جائے گی نسلوں کی سیاست ضرور کیجیئے مگر نسلوں کو خراب نہ ہونے دیں یہی آپکی،ہماری اور سبھی کی ذمہ داری ہے۔