وزیراعظم عمران خان کی قومی دولت لوٹنے والوں اور غیر قانونی طریقے سے ملکی خزانہ باہر منتقل کرنے والے مافیا کے خلاف مہم زوروشور سے جاری ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت وطن عزیز کی معیشت کو گرداب سے نکالنے اور عام آدمی کے حالات سنوارنے میں پوری تندہی سے مصروف ہے۔ وزیراعظم نے جس نئے پاکستان کا وعدہ کیا تھا اس کی انہوں نے بنیاد اپنی حکومت کے پہلے 100 دن میں رکھ دی تھی اور اب اس عمارت کو مضبوط ستونوں پر کھڑا کرنے میں اس قدر محو ہیں کہ سنا ہے کہ وہ چھٹی کے دن یعنی اتوار کو بھی دفتری امور نمٹا رہے ہوتے ہیں۔ کابینہ کے اجلاس، ہنگامی میٹنگز کے ذریعے وہ پوری ٹیم کو بھی متحرک رکھتے ہیں۔ہر ماہ وزراء کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ گزشتہ 72 سالوں میں پہلی بار ہوا ہے کہ وزیراعظم نے فیورٹ ازم، کی بنا پر وزراء کو عہدے نہیں دیئے اور نہ ہی ان کی پارٹی میں پوزیشن کو مقدم رکھا۔ بلکہ میرٹ پر انہیں قلمدان سونپے گئے اور ناقص کارکردگی کی بناء پر مختلف وزراء کو ان کی عہدوں سے سبکدوشی کی ایسی مثال قائم کی ہے جس کی نظیر پچھلے72 سالوں میں کہیں نہیں ملتی۔
حکومتی کرپشن ہٹائو مہم کی کامیابی میں اگرچہ بہت سی رکاوٹیںہیں مگر یہ وقتی ہیں ان سے وزیراعظم عمران خان کو دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ شوروغل صرف اسی لئے مچایا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو اس کے مقصد سے ہٹایا جا سکے اور وزیراعظم یوٹرن لے لیں۔ اب تک کے اقدامات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ عمران خان ‘احتساب’ کے وعدے پر پختگی کے ساتھ قائم ہیں اور وہ اس حوالے سے کسی بھی سیاسی بلیک میلنگ سے ہراساں بھی نہیں۔ کیونکہ انہوں نے اقتدار سے قبل اور وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد پہلے خطاب میں قوم سے لٹیروں اور ٹیکس چوروں کو سزا دینے کا وعدہ کیا تھا اور آج بھی قوم سے کیے گئے قول کو نبھا رہے ہیں۔یہ صحیح ہے کہ ملکی معاشی حالت دگرگوں ہے، مہنگائی کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بے روزگاری بڑھی ہے اور ملک کے تاجر طبقے کی ہڑتالوں سے صورتحال اور بھی گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ گراں فروشی میں کسی قدر ہاتھ تاجروں کا بھی ہے جنہوں نے خود ساختہ مہنگائی کر رکھی ہے۔ اگر حکومت ٹیکس ڈیوٹی سے دوگنا کر کے اشیا خورد و نوش بیچی جا رہی ہیں۔
اس وقت ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہے اور ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ ملک دشمن عناصر نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے وہ سرکار کے پچاس پیسے ٹیکس کے ساتھ مذکورہ اشیاء کی قیمتوں میں فی کلو دس روپے کے حساب سے اضافہ کر دیتے ہیں جو سراسر زیادتی ہے اور متعلقہ قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ان دنوں وزیراعظم عمران خان کا ایک ٹویٹ سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے حکومتی معاشی پالیسیوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھے میں آیا جس سے تجارت خسارہ تیزی سے کم ہوا ہے بلاشبہ تحریک انصاف جب اقتدار میں آئی اس وقت ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار تھی اور اس میں یہ حکومت ہی بہتری لے کر آرہی ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان کو پاکستان کا مہاتیر محمد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا اور وزیر اعظم نے ملائیشین ماڈل کو اپناتے ہوئے عوام تک تعلیم و صحت اور دیگر بنیادی سہولیات پہنچانے کیلئے عملی قدم اٹھا رہے ہیں کیونکہ اسی ماڈل کے ذریعے ہی ملائیشیا کی پسماندہ معیشت میں بہتری آئی اور اسی کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہونے لگا اور عمران خان ان سے ہمیشہ متاثر رہے ہیں ۔ ملائشین وزیراعظم مہاتیر محمد کی معاشی مفاد میں بنائی گئی پالیسیوں کے بہت بڑے مداح ہیں۔
ملائیشین وزیراعظم کے دورہ پاکستان کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد کو مسلمانوں کے قائد کی حیثیت سے دیکھتے ہیں انہوںنے اس دوران اپنے خطاب میںملائیشیا کے وزیراعظم کے کرپشن سے متعلق اٹھائے گئے سخت اقدامات کی بھی تعریف کی تھی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان ملائیشیا کے ذریعے دیگر آسیان ممالک کی مارکیٹوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ یقیناً پاکستان کے لئے انقلابی ویژن ثابت ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کے آئیڈیل مہاتیر محمد اس کی واضح مثال ہے اور یہ مہاتیرمحمد ہی ہیں جنہوں نے اپنے پاکستان میں قیام کے دوران وزیراعظم عمران خان کو آئی ایم ایف سے دور رہنے کا قیمتی مشورہ سے بھی نوازا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان مہاتیر محمد کے مشوروں پر عمل درآمد کرتے ہیں یا یہ مشوروے صرف مشوروں کی حد تک رہ جاتے ہیں ۔کرپشن کی روک تھام بہت ضروری ہے ۔مگر اس سے بھی ضروری پابندسلاسل کرپٹ عناصر سے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ نکلوانا ہے ۔معذرت کے ساتھ ابھی تک کسی بھی مجرم نے اپنا گناہ قبول نہیں کیا اور نہ ہی کچھ ریکوری ممکن ہوئی ہے ہاں البتہ ہر سو گرفتاریوں کا موسم ہے ۔بیماریاں حاوی ہونے کی وجہ سے بہت سے قومی مجرم ہسپتالوں میں رہائش پذیر ہیں ۔
سب کی صحت یابی کے لیے دعاگو ہونے ساتھ ساتھ ایک سوال جوکہ ہر وقت ذہن میں گردش کرتا ہے کہ آخر کب تک اس اسلامی ریاست میں انصاف کا بول بالا ہوگا ۔یہاں قانون کا بھی دوہرا معیار ہے۔ فرمان کریم ۖ ہے کہ وہ معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے جس میںقانون امیر کے لیے کچھ اور ہوتا ہے او ر غریب کے لیے کچھ اور ہوتا ہے ۔یہاں ایک ذہنی مریض ATMچور کو تشدد کرکرکے مار دیا جاتا ہے اور ملک چوروں کو نہ صرف پروٹوکول دیا تھا بلکہ انکی حفاظت پر سینکڑوں افراد کو مامور کردیا جاتا ہے۔وزیر اعظم عمران خان اس وقت مایوس عوام کی امید کی آخری کرن ہیں ۔اگر وزیر اعظم پاکستان عوام سے کیے گئے وعدوں کو نبھا پائے تو یہ آگے چل کر ماہ تاباں بن سکتے ہیں ۔عمران خان ایک سیاست دان نہیں بلکہ لیڈر ہیں اور لیڈر ہمیشہ آنے والی نسلوں کا سوچتے ہیں۔۔۔۔۔۔