تحریک انصاف کی بنیاد آج سے 22 سال قبل 25 اپریل 1996 ء کورکھی گئی تھی ،سیاسی پارٹی کی تشکیل کا مقصد عوام کی خدمت سے زیادہ ہمیشہ سے ہی حصول اقتدار ہی رہا ہے ،خدمت عامہ کیلئے سیاسی دکان سجانے کی ضرورت نہیں پڑتی،اس وقت عمران خان سمیت غالباً کسی کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں ہو گی کہ عمران خان اس ملک کے وزیر اعظم بننے کی تمنا دل میں رکھتے ہیں ، اس سے قبل عمران خان کی زیر سرپرستی دسمبر 1994ء میں خدمت انسانیہ کے لئے ”شوکت خانم میموریل کینسرہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر ”لاہورکاباقاعدہ آغاز کیاگیا یہ ہسپتال پاکستان کی تاریخ کا ایک مثالی منصوبے تھااور ہے،اس منصوبے کو خدمت عامہ کی غرض سے شروع کرنے کی بناء پر شریف برادران نے بھی انہیں لاہور میں کئی کنال اراضی حکومتی کھاتے میں عطیہ کر دی ، اس موقع پر بھی میاں نواز شریف یا میاں شہباز شریف نے عمران خان کی جھولی میں اپنی ملکیتی کوئی زمین اس نیک مقصد کے لئے نہیں ڈالی بلکہ قومی امانت میں خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے انہیں اراضی مہیا ء کر دی ۔اس وقت شریف برادران کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی ہو گی کہ وہ جس شخص پر احسان کرنے جا رہے ہیں وہی آنے والے کل میں انہیں جیل کی ہوا کھانے پر مجبور کر دے گا ۔لیکن یہ بھی مکافات عمل ہے کہ انسان سوچتا کچھ ہے اور اس کے ساتھ ہوتا کچھ ہے ۔ایسی صورتحال میں حضرت علی کا وہ قول مبنی بر حقیقت ثابت ہوتا ہے کہ ‘ جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ ‘ جس کے ساتھ نیکی کرو ،اُس کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو ”۔
یہ وقت اس بحث میں الجھنے کا نہیں ہے ، الیکشن ہو چکے ہیں ،ان میں پی ٹی آئی کو ملنے والے بڑے مینڈیٹ کے باوجود عمران خان کو منصب ِوزارت اعظمیٰ تک پہنچنے کیلئے ایک صبر آزما صورتحال سے گذرنا پڑا ،یوں وہ پاکستان کے 22ویں وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں،وفاقی کابینہ ،صوبوں میں وزراء اعلیٰ سمیت دیگرفیصلے کئے جاچکے ہیں،اور اس بارے متضاد آراء بھی سامنے آ رہی ہیں۔حصول اقتدار کے اس کھیل میں اس سے قبل سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی انہیں ”نادیدہ قوتوں” نے وزیر اعظم بنانے کیلئے ماحول بنانے کی کوشش کی تھی لیکن بوجہ چند ماہ بعد ہی ان کے سر سے دست ِشفقت کھینچ لیا گیا تھا۔
اس وقت شوکت عزیز ، محمد علی درانی سمیت بہت سے لوگوں نے راتوں رات پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور ہر طرف سے عمران خان ،عمران خان کی آوازیں آنے لگی تھیں ،لیکن شاہد رب کو منظور نہ تھا ،بعد ازاں پی ٹی آئی پس منظر میں چلی گئی لیکن پارٹی مقبولیت کاگراف اوپر کی طرف جانے لگا، البتہ گذشتہ 5سال سے دوبارہ انہی کوششوں میں تیزی آنے لگی اور عمران خان کو اس ملک کا وزیر اعظم بنانے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ، بظاہر ان کی جدوجہد22سالوں پر محیط ہے لیکن گذشتہ 5سالوں میں جس طرح اس کھیل کو آگے بڑھایا گیا وہ اپنے اندر ایک کہانی لئے ہوئے ہے ، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے ”روٹی،کپڑا اور مکان” کے نعرے سے شروع ہونے والی عوامی تحریک کے بعد اسلامی فلاحی ریاست کے قیام ، عوام کی حاکمیت جیسے نعروں کے بعد حکومتوں کی تبدیلی کیلئے کام کرنے والوں کے پاس کوئی اور پروگرام تو بچا نہیں تھا ، لے دے کر ”تبدیلی” کا نیا نعرہ ہی بچا تھا جس کی بنیاد پر عمران خان کو میدانِ سیاست کا شاہسوار بنا کر یہ کھیل شروع کیا گیا۔
بیشک ! عمران خان کے آہنی عزم نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے اور یہ سب ان کے لئے اللہ رب العزت کی عطا ہے ، بیشک !” وہ جس کو چاہے عزت دے جس کو چاہے ذلت دے ” ۔عمران خان کی خوش بختی میں ان کی موجودہ اہلیہ بشریٰ بی بی کا بھی بہت ہاتھ ہے ،کہ رب العزت نے آج انہیں اس ملک کا وزیر اعظم بنادیا ہے ،اسکے ساتھ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ عمران خان کی کامیابی میں ہمارے ان بچوں کا بھی بہت عمل دخل ہے کہ جنہوں نے اپنا ووٹ نہ ہونے کے باوجود اپنے گھروں میں اپنے والدین تک کو مجبور کیا کہ اس بار ”شیر” کو نہیں ”بلّے” کو ووٹ دینا ہے ،تبدیلی لانا ہے ، نیا پاکستان بنانا ہے ۔گویاقوم کے بچوںکی نظریں عمران خان پر لگی ہیں ۔وہ واقعی ”نیا پاکستان ” بنانا چاہتے ہیں ۔توقع ہے کہ عمران خان بحیثیت وزیر اعظم جو اقدام بھی اٹھائیں گے وہ قوم کے نونہالوں کی امیدوں اور توقعات کو بھی سامنے رکھیں گے اور مستقبل قریب میں انہیں اپنے کردار و عمل سے مایوس نہیں کریں گے ۔خدانخواستہ عمران خان اپنے وعدوں کی تکمیل میں سرخرو نہ ہوسکے تو آئندہ الیکشن میں یہ بچے بڑے ہوکر اپنے لئے عوامی نمائندوں کا انتخاب کریں گے جوایک حقیقی احتساب ہوگا۔عمران خان کی کامیابیاں ان کی طویل صبر آزما جدوجہد کاانعام ہے بقول شاعر
چل کے آیاہوں، اٹھا کے نہیں لایاگیامیں کوئی شک ہے تو میرے پاؤں کے چھالے گن لو
بلاشبہ ! وزیر اعظم بننے کے بعد ایک بھاری ذمہ داری کا بوجھ اُن پر آن پڑا ہے اور یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کا ہر فردسیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کرتبدیلی کے مشن کی تکمیل میں ان کا ہمنوا ہے ، اب یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سرگرم ِعمل ہو جائیں ،یہی وہ وقت کہ جب انہیںعوام کی اُمیدوں کو جلابخش کر پاکستان کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا ہے ،بگڑے ہوئے معاشرے کو سنوارنا کوئی آسان کام نہیں ہے،لیکن عزم و حوصلے سے انہیں آگے بڑھنا ہوگا ۔اپنے مقاصدکو پروان چڑھانے کیلئے انہیں چینی قوم کی مثال ذہین نشین کر لینا چاہئے کہ وہاں کی قیادت نے ایک بے کاراور بے عمل” نشئی قوم” کو اپنے کردار وعمل سے ایک ایسی کارآمد اور باوقار قوم بنا دیا ہے کہ جس کی مثال آج دنیا بھر کے پسماندہ ممالک کیلئے کسی مشعلِ راہ سے کم نہیں ۔حکمران اگر کسی ملک کی تقدیر بدلنے کا عزم کر لیں تو اس کے ہمیشہ ہی مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیںاور قومیں بھی اپنے قائدین کے شانہ بشانہ چلنا اپنا قومی و ملّی فرض سمجھتی ہیں۔ساری قوم کی طرح ہماری دعائیں بھی عمران خان کے ساتھ ہیں ۔دُعا ہے کہ وہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کے مطابق” نیا پاکستان” بنانے میں کامیاب و کامران ہوں ،اور آنے والی نسلیں ” نئے پاکستان” میں امن، سکون اور وقار کے ساتھ رہ سکیں۔