قیامت اور جنت کسی نے نہیں دیکھی ۔ لیکن دنیا میں ایسے مقام اور واقعات ہوتے ہیں جس سے قیامت اور جنت یاد آ جاتی ہے۔ آج بھی دنیا قدرت کے حسین نظاروں کی وجہ سے کشمیر جنت نظیر کی صدا بلند کرتی ہے ۔ ایسے ہی جب کہیں ظلم و ستم کی انتہا ہوتی ہے تو اس کو قیامت صغری قرار دیا جاتا ہے ۔ آج سے چار سال پہلے جب 30 اور 31 اگست 2014 کی درمیانی رات اسلام آباد کے ریڈ زون میں جاری پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے جاری دھرنے شاہراہ دستور سے وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام آباد کا ریڈ زون سیاہ زون میں بدل گیا، اسلام آباد کا پر سکون اور ممنون ترین علاقہ پولیس کی فائرنگ اور مردوخواتین کی چیخ و پکار سے گونج اٹھا۔ احتجاج کرنے والے کارکنوں کے ساتھ میڈیا سٹاف اور لائیو کوریج میڈیا وین بھی پولیس کی گلو کریسی کا نشانہ بنیں۔ اسلا م آباد کے جناح ایونیو میں ہر طرف ایمبو لینس کے سائرن سنائی دے رہے تھے ۔ مظاہرین کیلئے یہ رات قیامت صغری سے کم نہیں تھی۔
عمران خان ہی تحریک انصاف میں وہ لیڈر تھے جو اس رات ایک کارکن بن کر کھڑے تھے ۔ اسلام آباد کی ہائی کلاس سے تعلق رکھنے والے عمران خان کے فالورز جو صرف شام کو تین سے چا رگھنٹوں کیلئے دھرنے کی رونق بنتے تھے ، وہ تو شیلنگ کے پہلے فائر کے ساتھ منتشر ہو گے۔ لیکن عجب منظر تو اس وقت ہوا جب تحریک انصاف کی قیادت بھی عمران خان کوکنٹینر پر تنہا چھوڑ کر رفو چکر ہوگئی۔ جب یہ صورت حال ڈاکٹر طاہر القادری کے علم میں آئی توان کے حکم پر دیکھتے ہی دیکھتے ہی عمران خان کا کنٹیر کے گرد عوامی تحریک کے کارکنوں کا حفاظتی حصار بن گیا۔ جس کا ذکربعد میں عمران خان نے اپنی میڈیا ٹاک میں بھی کیاکہ اس رات عوامی تحریک کے کارکنوں کی استقامت اور حوصلہ قابل دید تھا ۔ جنہوں نے اپنے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کے ایک حکم پر میری اس وقت حفاظت کی جب تحریک انصاف کے کارکن حکومتی ظلم و ستم کے سامنے بے بس ہو کر پیچھے ہٹ گئے تھے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14 کارکنوں کی شہادت اور 100 سے زائد کارکنوں کے زخمی ہونے کے باوجودعوامی تحریک کے کارکنوں کے حوصلہ کم نہ ہوئے اور چند ہی دن میں اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انقلاب مارچ کی صورت میں اسلام آباد کارخ کر چکے تھے اور پھر 31اگست 2014کی رات حکومت کی طرف سے غیر انسانی اقدام کی صورت میں قیامت صغری برپا ہونے کے باوجود کارکنوں کے جذبوں اور استقامت میں رتی برابر بھی کمی نہ ہوئی۔ اور آج بھی امن کا دامن تھامے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کی قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔
سابقہ آرمی چیف راحیل شریف کی طرف سے وعدے کے باوجود انصاف کا راستہ نہ کھل سکا۔ موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے ایک شہیدہ کی بیٹی بسمہ امجد سے میڈیا کے سامنے وعدہ کیا گیااور حکم جاری کیا کہ اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے ۔ اس حکم کے بعد نہ تو روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوئی نہ کوئی پیش رفت۔ بلکہ اس سانحہ سے متعلق متعدد درخواستوں میں سے ایک درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد محفوظ فیصلہ کو مزید محفوظ بنا دیا گیا اور کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی محفوظ فیصلہ نہیں سنایا جا رہا۔
عمران خان کے وزیر اعظم پاکستان کا منصب سنبھالنے کے بعد عوامی تحریک کے کارکنوں کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں انصاف کیلئے عمران خان سے بہت زیادہ امیدیں ہیں ۔ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو ہر فورم پر شہداء ماڈل ٹاؤن کیلئے آواز بلند کی، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ سانحہ ماڈل کے ورثا اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو مایوس کرتے ہیں یا 30 اور 31اگست کی رات اپنی جان پر کھیل کر عمران خان کی حفاظت کرنے والے کارکنوں کو انصاف دلانے میں اپنا مثبت کردار ادا کر کے اس رات کا شکریہ ادا کریں گے۔