تحریر : محمد عبداللہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ پر ایک جاندار بیان جاری کیا ہے اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک زبردست اشتہار چلایا جارہا ہے ۔ گزشتہ روز ہم نے بھی یہی لکھا تھا کہ محض یوم سیاہ منا لینا کافی نہیں ہے کرنے کے کچھ بلکہ کئی اور بہت سے کام باقی اور ناگزیر ہیں ۔ بہر کیف وزیراعظم میاں نواز شریف نے خوب جرائت مندانہ مئوقف قوم اور عالمی دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اوربھارت کو ایک کرکراپیغام دیا ہے۔ یہاں ہم یہ بات ضرور ذکرکرتے چلیں گے کہ اب تو واقعی بس بہت ہوگیا ہے کیونکہ چند سیاسی حریف اور ناقدین کشمیر کے حوالے سے وزیراعظم کو خوب تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ اب اس کے بعد وہ لوگ وہ سیاسی بیان بازی کرنیوالے نئے اور پرانے سیاستدان کہاں ہیں۔کیا انہیں وزیراعظم کے اس بیان کا علم نہیں ہوا؟اس کی وضاحت بھی گزشتہ اداریے میں کی تھی اب یہ بات واضح بھی ہورہی ہے کہ سیاسی ناقدین کی طرف سے کشمیر کے معاملے پر وزیراعظم کو بلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔
اس تنقید کا مقصد بس آزاد کشمیر کے الیکشن میں ریٹنگ اور ووٹنگ حاصل کرنا تھا۔ چنانچہ وہی ہوا۔ مگر آج وہ بھی واضح ہوجائے گا کہ کس کس کو آزاد کشمیر کے اقتدار کا کتنا حصہ نصیب ہوا۔ وزیراعظم نے کشمیر کے حوالے سے جامع بیان جاری کیا ہے انکی یہ بات مبنی برحقیقت ہے کہ پاکستان اور کشمیر کا رشتہ دیرینہ اورہمہ گیر ہے ۔ مسئلہ کشمیر کو کسی بھی صورت بھارت کا داخلی مسئلہ نہیں قراردیا جاسکتا۔یہ بھارت کا داخلی مسئلہ ہے تو نہیں مگر اسکے قبضے جوکہ ناجائز قبضہ ہے اسکی وجہ سے بھارت اسے اپنا داخلی مسئلہ قرار ضرور دے رہا ہے ۔ مگر اس حوالے سے پاکستان عالمی قوانین کے مطابق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا منتظر ہے۔
Nawaz Sharif
اس حوالے سے وزیراعظم نے خود ہی ایک موثر بات کہی ہے کہ بھارت اسے متنازعہ علاقہ تسلیم کرچکا تھا۔ اب سازش کے تحت اسے اپنا حصہ قرار دیتے ہوئے کشمیر کے مسئلہ کو داخلی قرار دیتے ہوئے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے ۔ مگر یہ بات اہم اور قابل ذکر ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے اور یہ روز روشن کی طرح عیاں حقیقت ہے جسکا تذکرہ بھی وزیراعظم نے کیا ہے کہ کشمیر سے اٹھنے والی آزادی کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ یقیناً اس قدر جدوجہد عزیت برداشت کرنے انسانیت سوز مظالم برداشت کرنے کے بعد یہ آزادی کی نہ تو تحریک رک سکتی ہے۔ نہ ہی آزادی کی آواز دبائی جاسکتی ہے ۔ کئی دہائیاں گذر چکی ہیں کہ کشمیری قوم نسل در نسل قربانیاں دیتی چلی آرہی ہے ۔ انکی آزادی کا سفر رکنے اور تھمنے والا نہیں کیونکہ اب بس بہت ہوگیا ہے۔
بلکہ بہت ہوچکا ہے ۔ پاکستانی سیاسی قیادت سنجیدگی اور اخلاص کا مظاہرہ کرے تو یہ مسئلہ جلد ازجلد حل ہوجائے گا۔اگر تو بس اس ایشوپر بھی سیاسی رنگ بازی کرنی ہے تو سیاسی مقاصدشاید حاصل ہوجائینگے ۔مگر ذمہ داری ادانہ کرکے غفلت اور جرم کے مرتکب ہونیوالوں کا وقت احتساب ضرور کرتا ہوتا ہے ۔ کیونکہ قوم احتساب کرسکے یا نہیں وقت کا پانسہ پلٹتے ہی احتساب کا عمل آہی جاتا ہے کیونکہ وقت اورقدرت کی طرف سے اس وقت یہی آواز آتی ہے کہ بس بہت ہوگیا۔کشمیر کے معاملے اور دیگر قومی امور پر سیاسی جمع خرچ ، بیان بازی،پوائنٹ سکورنگ ہی ہوتی ہے حد ہوگئی ہے ۔ صرف اسی لائن میں بہت ہوگیا۔ بہت ہوچکا ہے۔