وزیراعظم نااہلی کیس، اٹارنی جنرل سے چار سوالات پر معاونت طلب

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے چار سوالات پر معاونت طلب کر لی۔ قائم مقام چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نا اہل ہو جائیں۔

کیس کا فیصلہ آئے تو چاہے 50 ممبران اسمبلی ڈی سیٹ ہو جائیں ،ہمیں آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہے ۔سپریم کورٹ میں قائم مقام چیف جسٹس جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ وزیر اعظم کی نا اہلی سےمتعلق تین مختلف درخواستوں پر سماعت کی سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے چار سوالات پر معاونت طلب کر لی، پہلا سوال تھا کہ اگر کسی رکن اسمبلی کے نا اہل ہونے کی درخواست آتی ہے تو مجاز فورم کون سا ہو گا دوسرا سوال تھا کہ اگر یہ طے ہوتا ہے کہ معاملہ عدالت سنے گی تو کون سی عدالت مجازہوگی ؟ تیسر ا سوال تھا کہ نا اہلی کے لئے مجوزہ طریقہ کار کیا ہو گا چوتھے سوال میں پوچھا گیا کہ نا اہلی کے لئے مجوزہ طریقہ کار کے ثبوت کیا ہو ں گے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں اسپیکر کا فیصلہ درست لگتا ہے کہ پہلے کوئی مجاز عدالت جرم ثابت کر ے پھر اسپیکر اسے نا اہل قرار دے۔ اٹھارویں ترمیم سال 2010 میں ہوئی جس میں یہ طے پایا کہ اب کوئی بندا جو صادق امین نہیں ہو گا، رکن اسمبلی نہیں بنے گا۔ اگر عدالت حالات کے پیش نظر فیصلے دینے لگے تو متنازع فیصلے آئیں گے، آئین پاکستانی عوام کی خواہشات کا عکاس ہے، کسی کا صادق و امین ہونا ہمارا ذاتی مطالبہ نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات سے ہمیں سروکار نہیں ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی کا کہنا تھا کہ آئین میں پہلے صادق و امین کے آرٹیکل ہیں، اس کےبعد ممبراسمبلی کے استثنٰی سے متعلق آرٹیکلز ہیں، ریٹرننگ آفیسرز کی صوابدید ہے کہ کسی کو الیکشن کے لیے اہل یا نااہل قرار دیں،ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ ایک شخص کو سورہ نہیں آئی تو اسے ریٹرننگ آفسر نے نا اہل قرار دے دیا۔

آئین میں واضع ہے کہ اگر کوئی ممبر عدالت سے سزا یافتہ ہے تو وہ اسمبلی کے لئے نا اہل ہے۔انہوں نے استفسار کہا کہ بتائیں کس کیس میں وزیر اعظم نواز شریف کو سزا ہوئی ہے؟ اسپیکر کی رولنگ آ چکی ہے ، اسپیکر آپ کے الزامات پر وزیر اعظم کو نا اہل قرار نہیں دے سکتے۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ ممبر پہلے جھوٹے نہیں تھے اب جھوٹے ہو گئے ہیں۔آئین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ اگر کوئی ممبر جھوٹا ہے تو اسمبلی سے باہر نکل جائے۔آئین میں ہے کہ اگر ممبر اسمبلی سزا یافتہ ہو گا، تو نا اہل ہو گا۔

درخواست گزار اسحاق خاکوانی کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ہم نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی بنچ سے علیحدگی کی درخواست دے رکھی ہے ،سپریم کورٹ آفس درخواست سماعت کے لئے نہیں لگا رہا،65 دن ہو گئے اس کیس کی کوئی معنی خیز سماعت نہیں ہوئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے عرفان قادر سے کہا کہ گوہر نواز سندھو کہتے ہیں یہ کیس میں سنوں، آپ کہتے ہیں نہ سنوں ،کیس کا بنچ تشکیل دینا ایک انتظامی مسئلہ ہے۔آپ بس یہ چاہتے ہیں کہ میں اس سیٹ پر نہ بیٹھوں۔ کیس کی مزید سماعت 10نومبر کو ہو گی۔